کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 34
کرے اور نہ یہ کہ وہ معاشرے کے اعلیٰ نمونوں کے مطابق ہو۔ بلکہ معاشرہ بذات خود تسلیم کرے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے معیار سے بھی اوپر ہے۔ مثالی عقلی پہلو کے اعتبار سے: اس نظریہ کے قائلین کہتے ہیں کہ اخلاق انسانی کردار کے اعلیٰ نمونے کے مطابق ہونے کو کہتے ہیں ان کے نزدیک عقل انسان کے لیے واجب ہے کہ وہ اسی کے مطابق ہو نہ کہ اس غایت کے لیے کہ وہ واجب ہے۔ اس نظریہ کے مطابق اخلاق واجب ہے۔ چونکہ یہ وجوب کی نیت سے دیکھتے ہیں اور اس کا ہدف ان کے نزدیک غیر اہم ہے۔ اس نظریہ کے حاملین میں سے کچھ فلسفیوں کی رائے یہ ہے کہ اخلاق کی غرض و غایت کو دیکھنا چاہیے تاکہ وہ نیکی، کمال انسانی یا سعادت کے مطابق ہو۔ منفعت کے پہلو سے: اس نظریہ کے قائلین اخلاق کو منفعت کے پہلو سے دیکھتے ہیں ۔ چاہے وہ فرد کے لیے ہو یا معاشرے کے لیے ہو یا کوئی ایسا عمل ہو جس کا نفع جاری رہے۔ اس تعریف کی روشنی میں اخلاق شخصی، اجتماعی یا واقع عملی کی منفعت کو کہتے ہیں اور اخلاق کی قدر قیمت اس خیر اور منفعت کے مطابق ہو گی جو کسی فرد کو حاصل ہو یا عوام کو حاصل ہو یا کوئی عملی فائدہ ملے۔ نوع انسانیت کے مزاج کے پہلو سے: اس نظریے کے قائلین اخلاق کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ یہ انسان کے کردار کے وہ اصول و مبادی ہیں جو انساین طبیعت سے نمودار ہوتے ہیں چاہے یہ طبیعت انسان کی اجتماعیت و عواطف میں ظاہر ہو یا جمال اور خیر کے حواس کے ذریعے ظاہر ہو کہ جن کا مرجع فطرت انسانی ہے۔[1]
[1] الاخلاق الاسلامیہ للدکتور مقداد یالجن، دار عالم الکتب بالریاض، ط ۱: ۱۴۱۳ ہـ۔ ۱۹۹۲، ص: ۴۳ اور اس کے بعد۔