کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 31
نہیں ہوتی۔ آپ غور کریں کہ ایک امریکی خاتون ٹیچر جو متعدد نسلوں کی مربیہ ہوتی ہے وہ نو عمروں کے درمیان جنسی روابط رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے ذرہ بھی جھجک محسوس نہیں کرتی اور ببانگ دہل کہتی ہے کہ زندگی نہایت قلیل ہے۔ گویا عمر کا قلیل ہونا جنسی خباثت اور اخلاقی فساد کے لیے عذر لنگ ہے۔ درج بالا انسان نما حیوانوں کے غیر فطری جنسی روابط کی تصویریں دیکھنے کے بعد آپ اسلامی شریعت پر غور کریں جو اس طبعی و فطری غریذہ کو محدود کرنے کے لیے مشروع اور قانون طریقے استعمال کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔ اللہ کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ الْبَآئَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہٗ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہٗ لَہٗ وِجَآئٌ))[1] ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح پر قادر ہو اسے شادی کر لینی چاہیے اور جو قادر نہ ہو تو وہ لازماً روزے رکھے کیونکہ روزہ شہوانی قوت کم کرتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِذَا اَتَاکُمْ مَّنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہٗ وَ خُلُقَہٗ فَزَوِّجُوْہُ اِلَّا تَفْعَلُوْا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ)) [2] ’’جب تمہارے پاس ایسا آدمی آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں اچھا لگے تو تم اس کی شادی کرا دو وگرنہ زمین میں بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
[1] صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، ج ۹، ص: ۱۷۲۔ [2] ترمذی، ج ۱، ص: ۲۰۱۔ ابن ماجہ، ج ۱، ص: ۶۰۶-۶۰۷۔ حاکم، ج ۲، ص: ۱۶۴-۱۶۵۔ اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ احادیث الصحیحۃ، ج ۳، حدیث نمبر: ۱۰۲۲ پر اسے حسن کہا۔