کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 28
کو انتہائی بلندیوں پر پہنچایا اور خاندان کے تمام افراد کو باہمی رحم دلی، احترام اور تعاون کی کڑیوں کے ذریعے سب کو مربوط کر دیا۔ ایسے ہی اسلام نے ازدواجی بندھن کو ایک نیا معنوی حسن دیا کہ مرد پر محرمات (وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا حرام ہوتا ہے) سے اجتناب فرض کر دیا اور زوجین کو حسن طبیعت اور قوت اخلاق کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا۔ صرف خرش شکلی اور تنو مند جسم کی خوبیوں کو ہی مدنظر نہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے لیے بیوی کو باعث تسکین و رحمت بنانے کا یوں اعلان فرمایا: ﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo﴾ (الروم: ۲۱) ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں ، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پاؤ اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خاوند اور بیوی کو ایک ہی لباس میں دو جسم قرار دیا: ﴿ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ﴾ (البقرۃ: ۱۸۷) ’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ بلکہ ایک مسلمان عورت خاوند کی غیر موجودگی میں اللہ سے ڈرتی ہے اور اللہ کا خوف ہی اس کی نگرانی کرتا ہے۔ اس پر جب تنہائی کی وحشت غالب آتی ہے اور وہ وقتی جدائی کے غم میں مبتلا ہوتی ہے اور اس کے پسینے میں صنف نازک کا خون جوش مارتا ہے اور اس کی زبان اس کی جبلت کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہ تو اس وقت اسے دائرۂ عفت سے صرف ایمانی پردہ ہی باہر آنے سے روکتا ہے۔ وہ رات کے اندھیروں میں یہ اشعار گنگناتی ہے: