کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 26
ہمارے رب! ہم رک گئے۔ اے ہمارے رب! ہم رک گئے۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ الْخَمْرَ وَ عَاصِرَہَا وَ مُعْتَصِرَہَا وَ شَارِبَہَا وَ حَامِلَہَا وَ الْمَحْمُوْلَۃَ إِلَیْہِ، وَ بِائِعَہَا وَ مُبْتَاعَہَا، وَ سَاقِیَہَا وَ مُسْتَقِیَہَا، وَ فِیْ رِوَایَۃٍ وَ آکِلَ ثَمَنِہَا)) [1] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ عزوجل نے شراب، اس کو کشید کرنے والے، اس کو پینے والے، اس کو اٹھانے والے اور جس کی طرف اس کو اٹھا کر لایا جائے، اس کے فروخت کنندہ اور اس کے خریدار، اس کے ساقی اور جسے وہ پلا رہا ہو سب پر لعنت کی ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے ’’اس کی قیمت کھانے والے پر (بھی اللہ عزوجل نے لعنت کی ہے)۔‘‘ عادات کی خواہ کتنی ہی مخالفت اور شہوات کے ساتھ خواہ کتنا ہی تصادم کیوں نہ ہو اور نفس کی بے شک مخالفت ہو کیا نوع انسانیت نے فوری قبولیت کی کوئی ایسی مثال دیکھی ہے؟!! دوسری مثال: سید قطب اپنی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’چند سال پہلے امریکی پولیس نے ایک بہت بڑے اور منظم گروہ پر چھاپہ مارا جس کی متعدد شہروں میں شاخیں اور ذیلی مراکز تھے اس گروہ میں اونچے درجے کے وکلا اور بڑے بڑے ماہرین طب شامل تھے۔ (یعنی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے نہایت ماڈریٹ طبقہ سے ان کا تعلق تھا) اس گروہ کا منشور مجمل طور پر خاوندوں اور بیویوں کو طلاق پر آمادہ کرنا تھا۔ لیکن ان کا طریقہ بڑا نرالا تھا۔ وہ اپنے گروہ میں شامل مردوں اور عورتوں کو اپنا نیٹ ورک مضبوط کرنے کے لیے
[1] مسند احمد، ج ۱، ص: ۳۱۶۔