کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 21
اخلاص، رحمت، شفقت اور لطف و عنایت جیسے احساسات نمایاں کر سکے۔ بلکہ ان سب خوبیوں کے برعکس مادی و اقتصادی تعلقات کینہ پرور آمریت، زنگ آلود قلوب اور نفع کے نام پر غاصبانہ لوٹ مار پروان چڑھانے کا سبب بنتے ہیں نیز معاشرے کو دو انتہاؤ ں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور جینے کا سب سے اعلیٰ مقصد ’’کھاؤ پیو اور عیش کرو‘‘ بنا دیتے ہیں اور دلوں میں مادی قوت کی غلامی اور علم کی غلامی راسخ کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ عقل مادی خیر و شر طیب و خبیث، حلال و حرام اور معروف و منکر میں تمیز نہیں کر سکتی اور زندگی میں مادی مقصد کے حصول کے لیے ہر قسم کے وسیلے و طریقے کو مقدس ہونے کا تصور دیتی ہے۔ بے شک جو لوگ صرف مادے اور مادی منفعت پر یقین رکھتے ہیں اس کے علاوہ وہ کسی چیز پر یقین نہیں رکھتے وہ صرف لالچ اور پیٹ بھر کر کھانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ نیز وہ خود پسندی پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ منافقت اور دھوکہ بازی اور مشرکوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ وہ صرف معاوضہ ملنے کی لالچ میں کام کرتے ہیں ۔ یا مادی نقصان سے بچنے کے لیے کام کرتے ہیں اور مادی فائدے میں اضافہ ہی انہیں زیادہ کام کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے اور انہیں اپنی ڈیوٹی توجہ سے کرنے پر ظاہری و مادی منفعت کی ضمانت ہی ابھار سکتی ہے۔ اگر مادی منفعت کم ہونے کا یہ امکان ہو تو ان کا جوش فوراً سرد پڑ جاتا ہے اور اگر ان سے نگرانی کا کوڑا ہٹ جانے کا ذرہ بھی امکان نظر آ جائے تو وہ فوراً ہی سستی، کاہی اور غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور جونہی وہ دیکھتے ہیں کہ ان پر سے اور ان کے عمل سے نگرانی کا عمل سست پڑ گیا ہے تو وہ فوراً اپنی ڈیوٹی کو بھول جاتے ہیں ۔ یہ تو واضح تناقض ہے کہ کسی انسان کے بارے میں فرض کر لیا جائے کہ وہ مادی منفعت اور مصلحتوں کے حصول کے لیے محنت کرتا ہے پھر یہ بھی سمجھا جائے کہ اس میں روحانیت، انسانیت اور غیر آمریت بھی ہے۔ اپنے خون پسینے کی کمائی سے حاصل شدہ آمدن سے جو اس کی ضرورت سے زیادہ ہو، وہ دوسروں کو دے دیتا ہے کون سا سرپرست یا کون سا