کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 20
منحصر ہے۔ اسی لیے خاندان سے اخلاقی اقدار معدوم ہو چکی ہیں وہاں نہ تو کوئی اُنس و محبت ہے اور نہ باہمی تعاون و معاونت اور ہمدردی و غمخواری رہی اور نہ ہی خاندان کے افراد کے درمیان باہمی مودت و الفت رہی۔ اسی لیے آبا، امہات اور اولاد سب کے سب اپنے اپنے کندھوں کے سہارے جیتے ہیں ہر فرد کی خواہش ہے کہ وہ اپنی ذات کی حد تک اس ذمہ داری سے جلد از جلد عہدہ برآ ہو۔
اسی لیے غیر مسلم معاشروں میں بچوں کی پناہ گاہیں چائلڈ ہومز یا ’’ Creche‘‘ کر یچ وجود میں آ گئے اور بوڑھے اور بے بس والدین کے لیے اولڈ ہومز یا پیرنٹس ہوم وجود میں آ گئے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ہر غیر مسلم عورتوں پر نگرانی کے فریضے سے بھی محروم ہو چکا ہے اور ان کی باگیں ڈھیلی کر دی ہیں اور انجام کار کے طور پر خواتین نے اپنی خانگی اور خاندانی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پھر عورت انتقامی روح سے لبریز ہو کر اپنی مکمل آزادی کا اعلان کر دیا ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہے۔ خصوصاً ہر قسم کے اخلاقی قواعد و ضوابط سے اپنے آپ کو ہر غیر مسلم عورت آزاد سمجھتی ہے۔
کچھ ممالک میں حالات اتنے خراب ہو گئے کہ عورت خاوند کو بہت بڑا بوجھ سمجھنے لگی جو مرد و زن کی آزادی پر ایک ناروا قدغن ہے اور کھلم کھلا زنا ہونے لگا اور چاروں اطراف سے شہوت پرستی اور جنس الاؤ نے عورت کو گھیر لیا۔ خصوصاً جب سے نام نہاد آزادیٔ نسواں کی تحریک معرض وجود میں آئی ہے۔ غیر مسلم عورت پہلے سے کہیں زیادہ حواس باختہ ہو گئی ہے۔ ان بدبودار حالات نے عائلی زندگی میں ایک ہولناک گھاؤ لگا دیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں مفاسد اور ہزاروں ایسے جرائم واقع ہونا شروع ہو گئے کہ وہ غیر مسلم معاشرہ کے قابو سے باہر ہو گئے۔ ان کے لیے ناممکن ہو گیا کہ وہ ان جرائم و مفاسد کو عائلی، دینی یا قانونی لگام ڈال سکیں ۔
مادی اور اقتصادی تعلقات جو چند مصلحتوں ، منافع اور باہمی اغراض پر استوار کیے گئے تھے وہ محبت، مودت اور باہمی مروت کے جذبات پیدا نہ کر سکے اور نہ ہی وہ روحانی طور پر