کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 19
سب سے عظیم نکتہ ہے جیسے تجارت میں امانت، محنت طلب اعمال میں نظم و ضبط، وقت کی پابندی اور ملک و قوم کی محبت وغیرہ۔ لیکن جن اخلاق اقدار کا دنیوی فوائد میں کردار نہ ہو تو ان کا نفاذ غیر اہم ہے۔ جیسے عفت و عصمت، کرم و شرف، شرم و حیا، ادب و احترام، محبت و شفقت، خاندان کی تربیت، کشادہ دلی، صدق نیت، اخلاص، احترام انسانیت، مستحقین کے حقوق کی ادائیگی، بلکہ ان کے مخالف اخلاق و اقدار کا غلبہ و تسلط ہے۔ جیسے تکبیر و غرور، آمریت، سنگ دلی، منافقت، ظلم و زیادتی اور غیض و غضب وغیرہ۔ اس اعتبار سے نیک اور کامیاب آدمی اسے کہا جاتا ہے، جس کے اوپر تک تعلقات مضبوط ہوں اور وہ زیادہ مال دار اور طاقت ور ہو۔ اگرچہ اس کے اخلاق درندوں کی طرح ہوں ۔ اس کے برعکس جس آدمی کے تعلقات کمزور ہوں اور وہ مادی و جسمانی طور پر بھی کمزور ہو اور اس کا اثر و رسوخ بھی نہ ہو تو ایسا آدمی ناکام اور شکست خوردہ کہلاتا ہے، اگرچہ اس کے اخلاق مقرب فرشتوں جیسے ہوں ۔[1] ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے: ﴿ وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَظُنُّونَo﴾ (الجاثیۃ: ۲۴) ’’اور انھوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی(زندگی) نہیں ، ہم (یہیں ) جیتے اور مرتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا، حالا نکہ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ، وہ محض گمان کر رہے ہیں ۔‘‘ بے شک ایک غیر مسلم نظام حیات کے تحت رہنے والا خاندانی نظم اور ان کے قواعد و ضوابط سے تہی دامن ہو چکا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک خاندان کا دائرہ اقتصادی ضوابط پر
[1] The atory of philospht of orotory By G. Willdurant. ترجمہ محمد تقی الدین الامینی، ص: ۷۳-۷۴۔