کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 16
پہلی فصل:
غیر مسلموں کے ہاں اخلاق کا معیار
عصر جدید (نیا زمانہ، جو سترہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے)، میں ایسی سوسائٹی اور معاشرہ پایا گیا جو ازمنہ قدیمہ کے معاشروں پر تنقید و تغییر کر رہا ہے۔ اس نئے زمانے میں بے شمار ایسے نظریات و مواقف دکھائی دینے لگے جو معاشرتی فلسفے کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت فلسفوں اور نظریات نے انسان کو ملأ اعلیٰ (مکارم اخلاق) سے نکال کر ذلت و پستی کی تہہ میں پہنچا دیا ہے۔
اس کی وضاحت درج ذیل نظریات کی تفصیل سے بخوبی ہو جائے گی:
۱۔ قومی نظریہ:
جس نظریے نے وطن کو کائنات کا اعلیٰ نشان قرار دیا اور اسے انسانی کا اصلی مقصد کہا اور صرف ذاتی قوت میں اضافہ کی دعوت دی اور جس مقصد کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہو اس سے چشم پوشی کر لی اور دین، قانون اور اخلاق جو انجام بنانا چاہتے ہیں اس سے روگردانی کر لی۔
۲۔ نظریہ ارتقاء:
یہ ایسا نظریہ ہے جو انسان کو حیوان کی ترقی یافتہ شکل میں دیکھتا ہے۔ جو درحقیقت بندر کی ترقی یافتہ شکل سے وضاحت کرتا ہے اور یہ نظریہ معمولات زندگی میں مادہ کو بنیادی حیثیت دیتا ہے اور روح، عقل اور شعور کو مادی اعمال کا نتیجہ بتاتا ہے۔
۳۔ طبعی نظریہ:
اس نظریہ کے مطابق انسان میں بھی وہی طبیعت اور مزاج پائے جاتے ہیں جو چوپایوں میں پائے جاتے ہیں اور جن کا شمار انسان سے کم تر ہے۔ اس نظریہ کے مطابق انسان طبیعت حیوانی طبیعت کا ایک جزو ہے۔