کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 124
’’اور بے سمجھوں کو اپنے مال نہ دو، جو اللہ نے تمھارے قائم رہنے کا ذریعہ بنائے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے اموال ناحق طریقے سے کھانے سے منع کر دیا۔ جیسے ڈاکہ، رشوت، جعل سازی، حیلہ سازی اور سود وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ لَا تَاْکُلُوْٰٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِہَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنo﴾ (البقرۃ: ۱۸۸) ’’اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انھیں حاکموں کی طرف لے جاؤ ، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ ، حالانکہ تم جانتے ہو۔ ‘‘ ایسے ہی شریعت نے انسان کی تربیت محنت اور رزق حلال کے حصول کی محبت پر کی اور اولاد خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے والدین کی میراث سے حصے مقرر کر دئیے تاکہ ہر فرد کو اس کا حق بغیر ملامت، بغیر خوشامد کے مل جائے اور کوئی ایک کسی دوسرے کی وجہ سے محروم نہ ہو جائے۔ چہارم: عقل کی حفاظت: اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دے کر عزت بخشی اور دیگر مخلوقات پر اسے فوقیت دی اسی وجہ سے تمام احکام تکلیفی اس پر لاگو کیے گئے اور عقل کے ذریعے انسان حق اور حقیقت تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم نے جا بجا عقل مندوں کی مدح کی ہے اور انہیں غور و فکر اور کائنات کی تمام مخلوقات کی تحقیق کی رغبت دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰیo﴾ (طہ: ۱۲۸) ’’بے شک اس میں عقلوں والوں کے لیے یقینا کئی نشانیاں ہیں ۔‘‘