کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 120
حَرَّمُوْا عَلَیْہِمُ الْحَلَالَ، وَ اَحَلُّوْا لَہُمُ الْحَرَامَ، فَاتَّبَعُوْہُمْ فَذٰلِکَ عِبَادَتُہُمْ اِیَّاہُمْ)) [1] ’’سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت کر رہے تھے۔ میں نے کہا بے شک وہ ان (علماء و فقہاء) کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں ۔ وہ (علماء) جب ان پر کوئی حلال چیز حرام کر دیتے تو وہ اس کو مان لیتے اور وہ جو حرام چیز ان پر حلال کر دیتے تو وہ ان کی پیروی کرتے تو یہی ان کی عبادت تھی۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَمْ لَہُمْ شُرَکَائُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ﴾ (الشوری: ۲۱) ’’یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾ (الشوری: ۱۳) ’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہو جاؤ۔‘‘ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے اکامات پانچ انسانی معاملات کے گرد گھومتے ہیں ۔ وہ پانع معاملات اصل ہیں اور دیگر سب فروعات ہیں ۔ فقہ کی اصطلاح میں انہیں
[1] مختصر تفسیر ابن کثیر لصابونی، ج ۲، ص: ۱۳۷، ط دار القرآن۔