کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 117
دینے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس جزا اور جسے یہ جزا ملتی ہے اور حاصل کرنے والے انسان پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یوں بیان کرتا ہے: ﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰے وَ زِیَادَۃٌ وَ لَا یَرْہَقُ وُجُوْہَہُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّۃٌ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo وَ الَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍ بِمِثْلِہَا وَ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ مَا لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْہُہُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo﴾ (یونس: ۲۶-۲۷) ’’جن لوگوں نے نیکی کی انھی کے لیے نہایت اچھا بدلہ اور کچھ زیادہ ہے اور ان کے چہروں کو نہ کوئی سیاہی ڈھانپے گی اور نہ کوئی ذلت، یہی لوگ جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں ، کسی بھی برائی کا بدلہ اس جیسا ہوگا اور انھیں بڑی ذلت ڈھانپے گی، انھیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں پر رات کے بہت سے ٹکڑے اوڑھا دیے گئے ہیں ، جبکہ وہ اندھیری ہے۔ یہی لوگ آگ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘ غزوۂ تبوک میں جن تین اصحاب کا معاملہ موخر کیا گیا اور ان کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی ان کے قصے میں اس جزا کی واضح مثال موجود ہے: ﴿ وَعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo﴾ (التوبۃ: ۱۱۸) ’’اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں