کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 116
مقبول کر دی جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان میں مادی اور ادبی دونوں سزاؤ ں کا تذکرہ ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَّاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَo﴾ (النور: ۴) ’’اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسی (۸۰) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان لوگ ہیں ۔‘‘ (د) وجدانی یا اخلاقی سزا کی تفصیل: اس قسم کی جزا و سزا کا تعلق انسان کی اپنی ذات اور ضمیر سے ہے۔ مثلاً جب کوئی کسی گھٹیا حرکت کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ سہنا پڑتی ہے اور دوسرے اس کا احترام نہیں کرتے۔ یا جب کوئی شخص کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اسے دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے اور لوگ بھی اس کا احترام کرتے ہیں ۔ یہ جزاء انسان کو ملنے والی تربیت اس کے خاندان اور اس کے درجہ اثمانی کی وجہ سے ملتی ہے۔ اسی طرح یہ جزا ہر فرد کو دوسرے افراد کی نسبت مختلف ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان میں اسی مفہوم کی تاکید پائی جاتی ہے: ((اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَ الْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ وَ کَرِہْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ)) [1] ’’نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں خلجان پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگوں کو اس کا پتا چل جائے۔‘‘ یہ جزا بھی ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے جس کا تعلق انسان کے ذاتی کردار اور جزا
[1] مختصر صحیح مسلم للالبانی، ص ۴۷۱، حدیث: ۱۷۹۴۔ مسند احمد، ج ۴، ص: ۱۸۲۔