کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 114
کی موت واقع ہو جائے۔ گویا دنوی و اخروی طور پر اسے برے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی کچھ لوگ قواعد و ضوابط اجتماعی کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ تسلیم شدہ ایک حقیقت کی طرح ہوتے ہیں ۔ جیسے معاملات اور گفتگو میں صدق گوئی۔ چونکہ ایسے لگ جو جھوٹ کو عادت بنا لیتے ہیں وہ اپنے کو لوگوں کے سامنے منافق بنا کر پیش کرنے کا جرم کرتے ہیں پھر لوگوں کا ان سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور کوئی بھی ایسے لوگوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتا اورنہ ان سے لین دین وغیرہ کا کوئی عاملہ کرتے ہیں ۔ تو اسے لوگوں کے سامنے بھی خجالت و ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سے بھی پہلے وہ اپنے رب کا مجرم تو ہے ہی۔ طبعی جزا و سزا کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں موجود ہے جو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((مَا مِنْ قَوْمٍ یَظْہَرُ فِیْہِمُ الرِّبَا اِلَّا اُخِذُوْا بِالسَّنَۃِ، وَ مَا مِنْ قَوْمٍ یَظْہَرُ فِیْہِمُ الرِّشَا (اَلرِّشْوَۃُ) إِلَّا اُخِذُوْا بِالرُّعْبِ)) [1] ’’جس قوم میں سود عام ہو جائے اس کو قحط سالی کے ساتھ آزمایا جاتا ہے اور جس قوم میں رشوت عام ہو جائے اس پر (اس کے دشمنوں کا) رعب ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا نَقَضَ قَوْمٌ اَلْعَہْدَ اِلَّا کَانَ الْقَتْلُ بَیْنَہُمْ، وَ لَا ظَہَرَتِ الْفَاحِشَۃُ فِیْ قَوْمٍ اِلَّا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمُ الْمَوْتُ، وَ لَا مَنَعَ قَوْمٌ اَلزَّکَاۃَ اِلَّا حُبِسَ عَنْہُمُ الْقَطْرُ [اَلْمَطْرُ])) [2] ’’جو قوم عہد توڑتی ہے ان کے درمیان قتل و غارت گری عام ہو جاتی ہے اور جس قوم میں زنا عام ہو جاتا ہے ان پر اللہ تعالیٰ موت مسلط کر دیتا ہے اور جو قوم زکاۃ
[1] مسند احمد، ج ۴، ص: ۲۰۵۔ [2] الترغیب و ترہیب للمنذری، ج ۳، ص: ۲۸۵۔ حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔