کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 113
اور بائیں ( جانب) سے۔ اپنے رب کے دیے سے کھاؤ اور اس کا شکر کرو، پاکیزہ شہر ہے اور بے حد بخشنے والا رب ہے۔ پھر انھوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیجا اور ہم نے انھیں ان کے دو باغوں کے بدلے دو اور باغ دیے جو بد مزہ پھلوں اور جھاؤ کے درختوں اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔ یہ ہم نے انھیں اس کا بدلہ دیا جو انھوں نے نا شکری کی اور ہم یہ بدلہ نہیں دیتے مگر اسی کو جو بہت ناشکرا ہو۔ اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت رکھی، نظر آنے والی بستیاں بنا دیں اور ان میں چلنے کا اندازہ مقرر کر دیا، راتوں اور دنوں کو بے خوف ہوکر ان میں چلو۔ تو انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے، اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانیا ں بنا دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ہر طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بلا شبہ اس میں ہر بہت صبر کرنے والے، بہت شکر کرنے والے کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں ۔ ‘‘ اخروی جزا و سزا کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْئَتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۸۱) ’’کیوں نہیں ! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ ‘‘ (ب) طبعی جزاء کی تفصیل: اس جزا و سزا کا تعلق انسان کی اپنی ذات و فطرت سے ہے مثلاً کوئی شخص بذات خود امراض کے اسباب اختیار کرے یا کوئی شخص اپنے آپ کو اپنی خواہشات و شہوات کے پیچھے لگا لے جیسے زنا اور شراب اور جوا وغیرہ۔ اسے الٰہی سزا تو ملے گی یا اپنے مجتمع کے سامنے بھی وہ جواب دہ ہے ہی بہرحال وہ اپنے آپ کو مہلک امراض کا تر نوالہ بنا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ اس