کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 105
اس مسؤ لیت کے دائرے کار سے جبر و اکراہ پاگل پن اور عدم بلوغت خارج ہے۔ چنانچہ شخصی مسؤ لیت کے دائرے میں تمام اخلاق شامل ہیں چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ہوں ۔ مثبت ہوں یا منفی ہوں ۔ (ج) اجتماعی و معاشرتی مسؤ لیت: اس سے مراد ایک مسلمان شخص کی وہ ذمہ داری ہے جو وہ مسلم معاشرے میں بروئے کار لاتا ہے۔ چنانچہ کوئی مسلمان معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہتا۔ اسی لیے مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ اس موضوع پر متعدد آیات قرآنیہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان شخصی دوسروں کے ساتھ معاملات کیسے طے کرے؟! ان میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo﴾ (الانفال: ۲۵) ’’اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت سزا والا ہے۔‘‘ اسی طرح اس موضوع پر احادیث نبویہ بھی موجود ہیں جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترغیب دی گئی ہے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے جس کو پہلے بھی تحریر کیا جا چکا ہے۔ ((مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ)) [1] ’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے تبدیل کر دے اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان کے ذریعے روک دے اور اگر وہ اس پر بھی قادر نہ ہو تو اسے دل میں برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘
[1] مختصر صحیح مسلم للالبانی، ص ۱۶، حدیث: ۳۴۔