کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 104
’’اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھار ے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔‘‘ اسی لیے جو شخص اللہ کے خوف سے گناہ ترک کر دے تو بے شک اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَ السَّیِّئَاتِ ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً وَ مَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً)) [1] ’’بے شک اللہ عزوجل نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں پھر اس کی وضاحت کر دی تو جو شخص نیکی کا ارادہ کرے لیکن اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مکمل ایک نیکی لکھ دے گا۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے پھر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بھی ایک مکمل نیکی لکھ دے گا۔‘‘ اسی شخصی مسؤ لیت کے دائرہ کار میں وہ خیالات و افکار داخل نہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں جیسے پراگندہ خیالات، برے وسوسے وغیرہ۔[2] (۲) مادی اور محسوس سلوک کے اعتبار سے مسؤ لیت:… بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے قصد و اختیار کی شرط ہے چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ﴾ (المائدۃ: ۸۹) ’’اللہ تم سے تمھاری قسموں میں لغو پر مؤاخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں ۔‘‘
[1] صحیح مسلم، ج ۱، ص: ۱۱۸۔ [2] علم الاخلاق الاسلامی، د/مقداد یالجن، ص: ۲۵۶-۲۵۷۔