کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 103
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo﴾ (النساء: ۵۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰٓا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo﴾ (الانفال: ۲۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ دینی مسؤ لیت دیگر دونوں مسؤ لیتوں یعنی شخصی اور اجتماعی یا معاشرتی مسؤ لیت کو بھی شامل ہے۔ کیونکہ دین ہی اخلاق کی بنیاد ہے۔ اسی پر تمام تعلقات و روابط اور معاملات مرتب ہوتے ہیں ۔[1] (الف) شخصی مسؤ لیت: اس کی دو انواع ہیں : (۱) ارادہ اور قصد کے اعتبار سے (۲) مادی اور محسوس سلوک و کردار کے اعتبار سے۔ (۱) پہلی مسؤ لیت جو کسی فعل و عمل کے عزم پر مبنی ہے خصوصاً جب اس عامل اور اس کے عمل کے درمیان کوئی مانع یا رکاوٹ موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ﴾ (البقرۃ: ۲۸۴)
[1] الاخلاق و السیاسۃ، فی الفکر، ص: ۲۱۶، د/ محمد ممدوح العربی۔ علم الاخلاق الاسلامی، ص: ۲۵۶ د/مقداد یالجن الاخلاق و معیارہا بین الوضعیۃ و الدین، ص: ۳۴ د/ حمدی عبدالعال۔