کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 101
﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (النحل: ۱۱۵) ’’پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ سرکش ہو اور نہ حد سے گزرنے والا، تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ علم کے ثبوت پھر آزادانہ ارادے یا برے فعل کے ارادے سے اخلاقی ذمہ داری ثابت ہو جاتی ہے اور ارادہ وہی معتبر ہو گا جس میں نیت اور قصد عزم کے ساتھ مصحوب و مربوط ہو اور کوئی دباؤ نہ ہو۔ ایسے آزادانہ مکمل علم و معرفت سے مزین ارادے کے بارے میں کسی فقیہ کا قول ہے: ’’اللہ اور اپنے نفس کے سامنے ہماری مسؤ لیت کے لیے ضروری اور کافی شروط یہ ہے کہ کسی انسان کا عمل بالارادہ ہو پھر پوری آزادی کے ساتھ وہ عمل کرے اور اس عمل کے متعلق اسے پورا علم و ایقان حاصل ہو اور اس کے شرعی اور قانونی پہلو وہ اچھی طرح پہچان لے۔‘‘[1] خلاصہ بحث بالا یہ ہوا کہ اخلاقی مسؤ لیت کی شروط اہلیت عمل و استطاعت عمل، خیر و شر کی حدود کا علم کہ جو عمل وہ کر رہا ہے۔ نیز مکمل آزادانہ ارادہ بھی شروط میں شامل ہے کہ عامل انسان اور اس اخلاقی فعل کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔[2] سابقہ شروط کے ساتھ کچھ فقہاء ایک اور شرط کا اضافہ بھی کرتے ہیں جو امانت ہے اور اس سے مراد امانت تکلیفی ہے کہ جسے انسان نے اپنے ذمہ لے لیا۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے: ﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo﴾ (الاحزاب: ۲۷)
[1] دستور الاخلاق فی القرآن، ص: ۲۲۲۔ د/ محمد عبداللہ دراز۔ [2] الاخلاق و معیارہا، ص: ۳۳، د/ حمدی عبدالعال۔