کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 37
فضالہ نے سوچا کہ اگر اس کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے بعد اسے قتل بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر اس منصوبے پر عمل ضرور ہونا چاہیے۔ اس نے غور وفکر شروع کیا کہ وہ کس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہو سکتا ہے؟ شیطانی فکر نے اس کے ذہن میں ڈالا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے ہوں تو یہ اس کام کے لیے بہترین موقع ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل اکیلے ہوں گے، ارد گرداگر کچھ لوگ ہوئے بھی تو وہ زیادہ نہیں ہوں گے۔ اس نے تلوار کو اپنے کپڑوں میں چھپایا اور اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے ہوں۔ ایک دن فضالہ کو موقع میسر آگیا، اس نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے ہیں۔ اس نے بھی طواف کرنا شروع کر دیا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ کب آپ پر حملہ کرے۔ طواف کے دوران وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوتا ہے۔ ادھر اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے بچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر بذریعۂ وحی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فُضالہ کے ناپاک ارادے کی خبر دے دی۔ آپ چاہتے تو اسے فوراً گرفتار کروا دیتے ۔ آلۂ قتل تو اس کے کپڑوں میں چھپا ہوا تھا مگر یہاں رحمت ہی رحمت ہے، اپنی امت کے ساتھ خیر، بھلائی اور معافی ہے۔ فضالہ قریب سے گذر رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کیا اور فرمایا: (أَفُضَالَۃُ) ’’ارے کیا تم فضالہ ہو؟‘‘ کہنے لگا:اللہ کے رسول، ہاں! میں فضالہ ہوں۔