کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 357
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:’’ سبحان اللہ! جب دن روشن ہو جاتا ہے تو پھر رات کہا ں چلی جاتی ہے‘‘۔ میں نے آپ کی اس بات کو بھی چمڑے کے ٹکڑے پر لکھ لیا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرقل کا خط سننے سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:
’’ تم سفیر ہو اور تمہارا یہ حق ہے کہ تمہاری خاطر تواضع کی جائے۔ تمہیں انعام ملنا چاہیے اگر ہم نے تمہارے لیے انعام کی کوئی چیز دیکھی تو تمہیں پیش کی جائے گی۔ ہم اس وقت گھر سے باہر ہیں۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس تنوخی کو اسلام لانے کی دعوت دیتے ہیں اور وہ انکار کرتا ہے، مگر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا کہ آپ اس سے ناراض ہونے کی بجائے اس کی تالیف قلبی فرما رہے ہیں اور اسے انعام دینے کی بات کر رہے ہیں۔
اسی دوران حاضرین مجلس میں سے ایک صاحب کہنے لگے:میں اسے انعام دیتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا سامان کھولا اس میں سے زرد رنگ کا ایک خوبصوت حُلہ یعنی قیمتی کپڑوں کا جوڑا میری گود میں رکھ دیا۔
میں نے پوچھا:یہ انعام دینے والا کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ ان کا نام عثمان بن عفان ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں:’’ساتھیو! تم میں سے کون اس مہمان کی میزبانی کرے گا‘‘۔ایک انصاری صحابی نے کہا:یارسول اللہ! اس کی میزبانی میں کروں گا۔ میں اس انصاری کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور مجلس سے نکل کر جب باہر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا:(تَعَالَ یَا أَخَا تَنُوخ) ’’تنوخ قبیلہ کے بھائی !ذرا میرے پاس تو آؤ‘‘ میں آپ کے قریب ہو کر کھڑا ہوگیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور اخلاق دیکھیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پشت مبارک میرے سامنے کر دی اور ارشاد فرمایا:( ھَا ھُنَا امْضِ لِمَا أُمِرْتَ بِہِ) ’’اسے بھی دیکھ لو اسی کے بارے میں تمہیں(ہرقل کی جانب سے ) ہدایات دی گئی تھیں‘‘ میں نے آپ کی پشت مبارک کو دیکھا تو آپ کی پشت پر ختم نبوت موجود تھی۔
البدایۃ والنھایۃ للعلامۃ ابن کثیر:7/ 177۔