کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 350
عمرو ضمری ان سے پوچھتے ہیں:تم کون ہواور تمھارا تعلق کس قبیلہ سے ہے ؟ انھوں نے جواب دیا:ہم بنو عامر سے ہیں۔ عمرو ضمری نے انھیں اس وقت تو کوئی جواب نہ دیا، مگر جب وہ سوگئے تو حملہ کرکے انہیں قتل کردیا۔ ان کے اپنے خیال کے مطابق انھوں نے ان دونوں کو قتل کرکے بنو عامر سے صحابہ کرام کے قتل کا بدلہ لیا تھا۔ عمرو بن امیہ ضمری جب مدینہ طیبہ پہنچے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سارے حادثے اور ان دو آدمیوں کے قتل کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ جب آپ کو بتایا کہ میں بنو عامر کے دو آدمیوں کو بھی قتل کر آیا ہوں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم نے ان دو آدمیوں کا ناجائز قتل کیا ہے ، وہ ہماری امان میں تھے تمہیں ان کے قتل کا کوئی حق نہ تھا،لہٰذا میں ان کے ورثاء کو ان کی دیت ضرور ادا کروں گا۔ قارئین کرام! ذرا غور کیجییہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کردارو اخلاق کتنا بلندہے کہ بنو عامر کے ان دونوں آدمیوں کی دیت ادا کررہے ہیں بلاشبہ ان دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امان مل چکی تھی عمروبن امیہ ضمری کو اس کا علم نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے دونوں کو قتل کردیا۔ یہ دونوں افراد بلاشبہ بنو عامرمیں سے تھے اور اسی قوم نے ستر صحابہ کو شہید کیا تھا مگر دیکھیے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ بنو عامر کے دیگر لوگوں نے کیا تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو مجرم نہیں ٹھہرایا۔ اور اس قوم کے دوسرے لوگوں سے بدلہ نہیں لیا۔ یہ ایفائے عہد کی بلند ترین مثال اور اعلیٰ اخلاق کا بہتریننمونہ ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ کے رسول عمرو بن امیہ کے اس اقدام قتل کو شہداء کے انتقام کا ایک حصہ قرار دے دیتے کیونکہ مجرموں اور ظلم و ستم کرنے والوں سے ایسا سلوک روارکھا جاتا ہے، مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عدل و انصاف تھا، یہ آپ کا اعلیٰ اخلاق تھا کہ آپ نے کسی قوم کے کچھ لوگوں کے ظلم و ستم کو دیگر بے گناہ افراد کے کھاتے میں ڈال کر انھیں مجرم نہیں ٹھہرایا۔ اسلام کی روشن اور اعلیٰ تعلیمات ہی نے مسلمانوں کی اس قدربلند اخلاق کی طرف رہنمائی کی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس نوعیت کے عفو و در گزر اور بدلہ نہ لینے کی مثالیں تاریخ میں خال خال ہی ملتی ہیں۔