کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 349
ابوبراء نے ان کو پناہ دی ہے اس لیے ہم ان پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب اس بد بخت نے بنو سلیم کو حملہ کے لیے پکارنا شروع کردیا۔ اس قبیلہ کے ایک سو تیر انداز ان صحابہ کرام کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور بئر معونہ پر ان کو جا لیتے ہیں۔ صحابہ کرام نہتے تھے، یہ جنگ کرنے کے لیے تو گھر سے نہیں نکلے تھے ان بد بختوں نے دھوکے سے ان بہترین اور اخیار صحابہ کرام کو شہید کردیا ان میں سے صرف ایک صحابی عمرو بن امیہ ضمری زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی اطلاع ملی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ اس صدمہ کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ ایک ماہ تک فجر کی نماز میں بنو سلیم پر قنوت نازلہ پڑھتے رہے۔ اور ان مجرموں کے لیے بد دعا فرماتے رہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک مسلسل ظہر، عصر مغرب عشاء اورفجر کی نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھتے رہے۔ ہر نماز کی آخری رکعت میں جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو بنو سلیم کے قبائل رعل، ذکوان، وغیرہ کے خلاف بد دعا کرتے اور مقتدی اس پر آمین کہتے۔ قارئین کرام! اس دلخراش واقعہ کو پڑھنے کے بعد ہم ذرا آگے بڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول ان حالات میں بھی اخلاقی قدروں کو کس عمدگی سے پروان چڑھاتے اور انھیں فروغ دیتے ہیں۔ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ ان ستر صحابہ میں سے صرف سیدنا عمرو بن امیہ ضمری بچنے میں کامیاب ہوئے۔ جیسے ہی انھیں موقع ملا وہ مدینہ طیبہ واپس جانے کے لیے چل پڑے راستہ میں ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے بیٹھے تو وہاں بنو عامر کے دو آدمی آجاتے ہیں۔ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا امان نامہ موجود تھا جس کا عمرو بن امیہ ضمری کو علم نہ تھا۔