کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 348
1۔دیہاتی علاقوں پر آپ کی اور شہری علاقوں پر میری حکومت ہوگی۔ 2۔آپ کے بعد میں آپ کا خلیفہ اور جانشین بنوں گا۔ پھر اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا: 3۔اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو بنو غطفان کے ایک ہزار سرخ و زرد گھوڑوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تمام مطالبات مسترد کردیے۔ کچھ دن گزرے اسی عامر بن طفیل کا چچا ابوبراء عامر بن مالک مدینہ طیبہ آتا ہے۔ یہ شخص بڑا بہادر اور شجاع تھا۔ اس کا لقب برچھیوں سے کھیلنے والا تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تحفہ بھی پیش کیا اور عقیدت کا اظہار بھی کیا۔ قارئین پریہ بات مخفی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے خیر خواہ اور ہمدرد تھے انھوں نے عامر کو اسلام کی دعوت دی، جو اس نے قبول تونہ کی مگر اس سے نفرت کا اظہار بھی نہ کیا۔ دوران گفتگو اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:اگر آپ اپنے کچھ ساتھیوں کو اہل نجد کی طرف بھجوادیں جو لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں تو مجھے امید ہے کہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں گے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:مجھے اپنے آدمیوں کے متعلق اہل نجد سے خدشہ ہے۔ ابوبراء کہنے لگا:آپ اس کی فکر نہ کریں میں ان کا حمایتی ہوں۔ آپ جسے چاہیں اہل نجد کی طرف بھیج دیں۔ قارئین کرام! بئر معونہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا نہایت اندوہ ناک واقعہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے نہایت حریص تھے۔ آپ کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ تمام لوگ جہنم میں جانے سے بچ جائیں اور راہ راست پر آجائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ستر صحابہ کو روانہ فرماتے ہیں یہ لوگ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے والے اور قاری قرآن تھے۔ یہ قراء نجد کی طرف روانہ ہوئے توان کو بڑی گرم جوشی کے ساتھ الوداع کیا گیا ۔یہ حضرات ابھی راستہ میں ہی تھے کہ عامر بن طفیل کو ان کی آمد کا پتا چل گیا تو اس نے بنو عامر کو آواز دی کہ ان پرحملہ کردو۔ وہ کہنے لگے:چونکہ تمھارے چچا