کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 346
اپنے بھائی کی بات مان لی۔ پھر وہ ایک دن چھپتا چھپاتا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھا تو جس طرح شاعروں کی عادت ہے، آپ کے سامنے اپنا مشہور قصیدہ پڑھنا شروع کردیا۔ قارئین کرام! یہ قصیدہ نہایت ہی خوبصورت ہے، اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کرتے ہوئے وہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دیتا ہے۔ کہتا ہے:مجھے تو لوگوں نے بتایا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے قتل کا حکم جاری کردیا ہے حالانکہ مجھے تو ان سے معافی کی امید ہے۔ وہ اشعار پڑھتا رہا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور مدح بیان کرتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دیتا رہا۔ پھر وہ اعلیٰ ترین ہستی جن کا شیوہ اپنے مخالفین کو، اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کا تھا کعب کو معاف فرما دیتے ہیں، اس کے اسلام کو قبول فرماتے ہیں ، یہی نہیں بلکہ اس کی قدر کرتے ہوئے اسے تحفہ میں ایک چادر بھی عطا فرماتے ہیں۔ سیرت نگاروں نے کعب کے کہے ہوئے اشعار بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں، ان میں سے ایک شعر میں وہ یہ بھی کہتا ہے:میں وہ شخص ہوں جسے امان دی گئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: (مَأْمُونٌ وَاللّٰہِ!) ’’ہاں ہاں! اللہ کی قسم!تجھے قتل سے امان دے دی گئی ہے۔‘‘ قارئین کرام! یہ تھاہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کہ آپ اپنے دشمنوں پر قابو پانے کے باوجود ان کو معاف فرما دیتے تھے۔ کعب کا خون مباح تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدلہ لینے پر قدرت رکھنے کے باوجود نہ صرف اس کا اسلام قبول کرتے ہیں بلکہ اسے ایک عمدہ چادر بھی عنایت فرما رہے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس دورمیں کسی بھی شخص کوتحفے میں چادر کا ملنا بہت بڑی عزت اور شرف کی بات تھی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تو اعلیٰ صفات تھیں جن کی بدولت وہ پوری کائنات پر چھاگئے صلی اللہ علیہ وسلم ۔