کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 34
تلواروں کو غارت کرے، انھوں نے پہلے ہمیں کیا فائدہ پہنچایاہے جو اب پہنچائیں گی! ارشاد فرمایا: ’’عمیر! سچ سچ بتاؤ، تم کس مقصد کے لیے آئے ہو؟‘‘ کہنے لگا:سچ کہتا ہوں، میں صرف اپنے قیدی بیٹے ہی کے لیے آیا ہوں۔ ارشاد ہوا:’’کیا یہ سچ نہیں کہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے تھے۔ تم دونوں نے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتول سرداروں کا تذکرہ کیا، پھر تم نے کہا:اگر مجھے قرض کی ادائیگی اور اہل وعیال کی کفالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں مدینہ طیبہ جاکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیتا۔ صفوان بن امیہ نے تمھارا قرض چکانے اور بچوں کو اپنی کفالت میں لینے کی ذمہ داری قبول کرلی، اس شرط پر کہ تم مجھے قتل کردو۔ یادرکھو عمیر! اللہ تم لوگوں کے مقابلے میں میرا محافظ ہے۔ ‘‘ قارئین کرام! دیکھیے، ذہین آدمی جب ایک نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ عمیر نے یہ سنا تو بے اختیار پکار اٹھا:(أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ) ’’میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ یقینا آپ اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘۔ اللہ کے رسول! آپ ہمارے پاس آسمانوں کی جو خبریں لایا کرتے تھے، ہم انہیں جھٹلایا کرتے تھے، لیکن یہ معاملہ تو ایسا رازداری کا تھا کہ میرے اور صفوان کے علاوہ کسی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ رب کائنات کے علاوہ کسی نے آپ کو یہ بات نہیں پہنچائی۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دی۔ اس طرف بھی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا دریا موجزن ہے۔ عفو وکرم ایساکہ وہ شخص جو سید الاولین والآخرین کو قتل کرنے کے لیے آتا ہے، اس کے گھناؤنے جرم کو نہ صرف معاف کر دیا جاتا ہے بلکہ اسے اپنے ساتھیوں میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ علامہ ابن ا لأثیر رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کے مطابق عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعدسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ( لَخِنْزِیرٌ کَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْہُ حِینَ طَلَعَ)