کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 33
پیش رہتا تھا۔ بدر کے روز اس کے بیٹے وہب کو ایک انصاری صحابی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نے گرفتار کرلیاتھا۔
عمیر بن وہب تیزی سے سفر کرتا ہوا مدینہ طیبہ پہنچا۔ مسجد نبوی کے سامنے اپنی اونٹنی بٹھائی اور نیچے اترا۔ادھر مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کے درمیان بھی بدر کے معرکے پر ہی بات ہو رہی تھی۔ وہ اپنی کم تعداد کے باوجود اس فتح ونصرت اور تائید ربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہے تھے اور بدر کے واقعات دہرا کر خوش ہو رہے تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام کے ساتھ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھے بدر کی باتیں کررہے تھے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے انہیں عزت و وقار بخشا اور کفار کو ذلیل وخوار کیا۔ اچانک آپ کی نگاہ عمیر پر پڑی جو تلوار لٹکائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھتا چلا جارہاتھا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بصیرت کام آئی۔ کہنے لگے:ہو نہ ہو اللہ کا یہ دشمن کسی خطرناک ارادے سے یہاں آیا ہے۔ یہ بدر کے روز لوگوں کو جنگ کے لیے بھڑکانے والوں میں پیش پیش تھا۔ اسی نے اندازہ لگاکر کافروں کو مسلمانوں کی تعداد بتائی تھی۔جناب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے گلے میں لٹکی ہوئی تلوار کے نیام کی پٹی سے اس کی گردن دبوچ لی اور اسے گرفتار کرکے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ اللہ کا دشمن تلوار لٹکائے آرہاہے۔
ارشاد ہوا:’’عمر! اسے چھوڑ دو، آگے آنے دو۔‘‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے کہا:تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہنا اور اس خبیث پر نگاہ رکھنا۔ یہ نہایت خطرناک آدمی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عمیر! میرے قریب آؤ۔‘‘ وہ قریب ہوکر جاہلیت کے طریقے کے مطابق کہنے لگا:انْعَمُوا صَبَاحًا ’’آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ان جاہلانہ الفاظ کے بدلے میں ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمھارے اس تحیہ سے کہیں بہتر ہے،یعنی سلام سے جو اہل جنت کا تحیہ ہے۔ ہاں عمیر! بتاؤ کیسے آنا ہوا؟‘‘
اس نے کہا:میں اپنے قیدی بیٹے وہب کا حال معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں۔ برائے مہربانی اس کے بارے میں احسان فرمادیجیے۔ فرمایا:’’یہ تمھارے گلے میں تلوار کیسی لٹک رہی ہے؟‘‘ وہ بولا:اللہ ان