کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 32
کیا تم واقعی یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہو؟ صفوان نے بے قراری سے پوچھا۔ عمیر نے جواب دیا:ہاں بالکل! کیوں نہیں؟ بس ادائے قرض اور میرے بچوں کی کفالت کا مسئلہ حل ہو جائے تو میں یہ کام آسانی سے کرسکتاہوں۔
صفوان بولا:تم اس کی فکر نہ کرو، یہ تو میرے لیے بہت معمولی سی بات ہے۔ میں قرض اور کفالت کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں۔تمھارا سارا قرض میں اتاروں گا اورجوکچھ میرے بچے کھائیں گے اور پہنیں گے وہی تمھارے بیوی بچوں کو بھی میسر ہوگا۔ بس تم یہ کام کردو اور ہاں دیکھو! یہ نہایت راز داری سے کرنے کاکام ہے۔ روئے زمین پر اس منصوبے کا میرے اور تمھارے سوا کسی کو علم نہیں ہونا چاہیے۔
عمیر بولا:بالکل یہ رازراز ہی رہے گا۔ تم فکر نہ کرو… ا چھا تو پھر ہاتھ ملاؤ اور وعدہ کرو کہ اس بات کی کسی کو ہوا تک بھی نہیں لگے گی…میں اس منصوبے پر فوری عمل شروع کررہا ہوں۔ صفوان! تمھیں معلوم ہے کہ میرے پاس مدینہ طیبہ جانے کا ایک معقول بہانہ بھی ہے۔ میرا بیٹا وہب مسلمانوں کی قید میں ہے۔ اس سے ملاقات کرنے کا بہانہ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا۔
صفوان گھر آیا۔ اپنی تلوار میان سے نکالی تو ذرا زنگ آلود نظر آئی۔ اس نے اسے خوب تیز کرنے کے بعد زہر میں بجھانا شروع کیا اور زیر لب بڑبڑا یا:آہا !!اب اس تلوار سے میرے باپ اور بھائی کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔
پھر اس نے اپنی زہر میں بجھی تلوار عمیرکے حوالے کی اور اسے جلد از جلد مدینہ طیبہ روانہ ہونے کی تاکید کی۔ عمیرمدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوا۔ ان دنوں مکہ مکرمہ کی ہر مجلس میں، ہر گھر میں بدر ہی کا قصہ موضوع گفتگو تھا۔ صفوان ملنے جلنے والوں سے بڑے پُراعتمادلہجے میں کہتا:بس چند ہی روز کی بات ہے۔ میں ایسی زبردست خبر سناؤں گا کہ تم لوگ بدر کا غم بھول جاؤگے۔
عمیر بن وہب اپنی چالاکی، سفاکی، شرارت طبع اور بدباطنی کے باعث ’’شیطان قریش‘‘ کے لقب سے مشہور تھا ہی، وہ مکہ مکرمہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو تکلیف دینے میں بھی پیش