کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 29
دی ہے۔
زبیدی کو اس کا حق مل گیا ہے، اس کے اونٹ اس کی مرضی کی قیمت پر فروخت ہوگئے ہیں۔
مگر اس بڑے مجرم کو سبق تو سکھانا ہے، اسے بتانا ہے کہ دوبارہ اس قسم کی حرکت نہ کرے۔ ابو جہل اسی بازار میں خاموش چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کسی سے کوئی بات نہیں کررہا ہے۔ سوچ رہا ہو گا کہ سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کون ہے جو میرے مقابلے میں آنے کی جرأت کر سکتا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے ڈانٹتے ہوئے خبردار کیا:
( یَاعَمْرو! إِیَّاکَ أَنْ تَعُوْدَ لِمِثْلِ مَاصَنَعْتَ بِھٰذَا الْأَعْرَابِيِّ فَتَرٰی مِنِّي مَاتَکْرَہُ)
’’ اے عمرو! دوبارہ اس طرح نہ کرنا جس طرح تم نے اس دیہاتی شخص کے ساتھ کیا ہے ورنہ تم میری طرف سے وہ کچھ دیکھو گے جسے تم نا پسند کرتے ہو۔‘‘
ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شدید مرعوب ہو گیا۔ اس میں ہمت اور جرأت ہی نہ رہی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی بات کرسکے۔ جب آپ نے اسے متنبہ کیا تو فورًا کہنے لگا:اے محمد! میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے ہیں۔ بازار میں امیہ بن خلف اور وہ مشرکین جو اس وقت وہاں موجود تھے، ابوجہل کے پاس آئے ہیں۔ کہہ رہے ہیں:ابوالحکم! تمھیں کیا ہو گیا؟ ارے تم تو محمد کے سامنے بالکل مرے جا رہے تھے۔ کیا تم ان کی پیروی کرنا چاہتے ہو یا ان کا رعب اور دبدبہ تم پر طاری ہو گیاتھا؟ ابوجہل ان کی بات کے جواب میں کہہ رہا ہے:اللہ کی قسم! میں کبھی ان کی پیروی نہیں کروں گا۔ ان کے روبرو میری عاجزی اس و جہ سے تھی کہ میں نے ان کا جادو دیکھ لیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے دائیں بائیں کچھ آدمی ہیں جن کے پاس نیزے ہیں۔ انھوں نے وہ نیزے مجھ پر تان لیے تھے۔ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا تو وہ نیزے میرے بدن میں گھونپ دیتے۔ [1]
[1] (أنساب الأشراف: 147-146/1، و سبل الھدی والرشاد: 420/2)