کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 25
ہے۔زاہر ایک عام سا آدمی ہے مگر اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت فرماتے ہیں اور یہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے:(ابْغُونِي ضُعَفَائَ کُمْ) ’’ مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کیاکرو۔‘‘ اور پھر مزید ارشاد فرمایا:(فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِکُمْ)’’تمھیں ان کمزوروں اور ضعیفوں کی بدولت رزق اور فتح حاصل ہوتی ہے‘‘۔ قارئین کرام! ذرا تصور کیجیے کہ زاہر کی آنکھوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ریشم سے زیادہ نرم ونازک اور عنبر وگلاب سے زیادہ خوشبو دار ہاتھ ہیں۔ پہلے تو وہ گھبرایا۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں کہہ رہا ہے:کون ہے بھئی؟ میری آنکھوں پر کس نے ہاتھ رکھ دیے ہیں؟ لیکن جب اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کی نزاکت کو محسوس کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سونگھ لی تو اسے معلوم ہوگیا کہ اس کے پیچھے تو کائنات کے امام کھڑے ہیں۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور اپنی پشت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے مَلنا شروع کردیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بھرے انداز میں فرمایا:’’لوگو! کون ہے جو اس غلام کو خریدے؟‘‘ زاہر نے بھی محبت بھرے انداز میں عرض کیا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ جیسے کالے کلوٹے دیہاتی کو کوئی خرید کر کیا کرے گا۔ وہ تو بڑے خسارے کا سودا کرے گا۔ میری تو قدر وقیمت ہی کوئی نہیں۔ میں تو بے کار آدمی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:’’پیارے! ایسا نہ کہو، کیا تمھیں کسی نے کہا ہے کہ تمھاری کوئی قدر وقیمت نہیں؟ تم اللہ کے ہاں بیکار نہیں ہو۔ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہو، اس لیے تم اللہ کے ہاں بڑے قیمتی ہو۔‘‘[1]
[1] (صحیح ابن حبان: 107/13، و شرح السنۃ: 181/13، و جمع الوسائل في شرح الشمائل: 29/2)