کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 22
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَخْبِرُوا مَالِکًا أَنَّہُ إِنْ أَتَانِي مُسْلِمًا) ’’مالک کو اطلاع دو کہ اگر وہ مسلمان بن کر میرے پاس آجائے تو ‘‘ (رَدَدْتُ عَلَیْہِ أَہْلَہُ وَ مَالَہُ) ’’ میں اس کے اہل و عیال اور مال اسے واپس کر دوں گا۔‘‘
(وَأَعْطَیْتُہُ مِائَۃً مِّنَ الْإِِبِلِ) ’’اور اسے سو اونٹ بھی دوں گا۔‘‘
قارئین کرام! کیا کوئی اپنی جان کے دشمن کے ساتھ اس قسم کے سلوک کا سوچ بھی سکتا ہے؟ کیا اس فوج کا کمانڈر جس نے حال ہی میں فتح حاصل کی ہو، اپنے دشمن کے بارے میں ایسی مثبت سوچ رکھ سکتا ہے؟ یہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا کہ آپ دشمن کو بھی سینے سے لگا رہے ہیں۔
مالک بن عوف کو جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ملا تو گویا یہ اس کے دل کی آواز تھی جس مصیبت اور پریشانی سے وہ دوچار تھا، اس کا حل یہی تھا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ چنانچہ وہ فوراً طائف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق دیکھیے کہ آپ نے اس پر کوئی شرط عائد نہیں کی۔ اسے ملامت کی نہ برابھلا کہا اور نہ کوئی سوال و جواب کیا بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تصور سے بڑھ کر اچھا سلوک کیا۔
مالک بن عوف کو دوبارہ بنو ہوازن کا سردار مقرر کیا جاتا ہے اور اسے طائف کو فتح کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:134/4، والإصابۃ:550/5، 551، وأسدالغابۃ:38/5،
والسیرۃ النبویۃ لمہدي رزق اللّٰہ:600، والبدایۃ والنہایۃ:632/4، 633)