کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 199
بستی میں یہی ابوسفیان بن حارث اپنے بیٹے جعفر کے ہمراہ حاضر خدمت ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابو امیہ بھی آجاتے ہیں۔ ان دونوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ یہ بڑے قریبی رشتے دار تھے مگر دونوں ہی زندگی بھر سخت دشمن رہے۔ اب یہ دونوں نادم ہیں، اپنے بے شمار جرائم کی معافی چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو اور آپ سے معافی مانگ لیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرف باریابی نہ بخشا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے بہت تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ دور جاہلیت کے ایک عرب شاعرطرفہ بن عبد نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا: وَظُلْمُ ذَوِي الْقُرْبَی أَشَدُّ مَضَاضَۃً عَلَی الْمَرْئِ مِنْ وَقْعِ الْحُسَامِ الْمُہَنَّدِ ’’قریبی رشتے داروں کے ظلم کی آدمی کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ یہ اس کے لیے تیز دھار تلوار کے وار سے بھی زیادہ پریشان کن ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے کہ رشتہ دار سے مدد اور تعاون کی امید ہوتی ہے لیکن اگر وہ ا س کے بجائے دشمنی پر اتر آئے اور اذیت دینے لگ جائے تو آدمی کو بے حد دکھ ہوتا ہے۔ اس موقع پر ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان دونوں کی سفارش کر رہی ہیں۔ ان میں عبداللہ بن ابی امیہ ان کے بھائی تھے۔ ہماری یہ اماں جان بہت بڑے باپ کی نہایت سمجھدار بیٹی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر رہی ہیں:اللہ کے رسول! ایک آپ کا چچازاد اور دوسرا پھوپھی زاد بھائی ہے، آپ ان سے ملاقات کر لیں۔