کتاب: اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات - صفحہ 19
اب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دانائی اور سمجھداری ملاحظہ فرمائیے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے خوبصورت الفاظ میں تسلی دی، کہنے لگیں: (کَلَّا وَاللّٰہِ! مَا یُخْزِیکَ اللّٰہُ أَبَدًا) ’’ہرگز نہیں اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالی آپ جیسی ہستی کو ضائع نہیں کیا کرتا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ صفات کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کی گواہی دی کہ آپ تو رشتے جوڑتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں، عاجز لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، فقیروں اور ناداروں کو کما کردیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور ناگہانی آفات میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، حدیث:3، و صحیح مسلم، حدیث:160) قارئین کرام! ذرا اوپر لکھی ہوئی ایک ایک خوبی پر غور کریں کہ رشتوں کو آپس میں ملانا اور جوڑنا کتنا عمدہ کام ہے۔ سچ بولنا، لوگوں کا بوجھ اٹھانا، مہمان نوازی کرنا، لوگوں کی آفات میں مدد کرنا تمام کے تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق ہیں۔ یاد رکھیے کہ آپ کے بدترین دشمنوں نے بھی آپ کو کبھی بد دیانت یا جھوٹا نہیں کہا۔ مکہ مکرمہ میں لوگ آپ کو نام سے کم اور صفات سے زیادہ جانتے تھے۔ وہ آپ کو صادق اور امین کے القاب سے جانتے پہچانتے اور پکارتے تھے، کہتے تھے:صادق آگیا، امین آگیا۔ اسی لیے کافروں نے عطائے نبوت کے بعد بھی آپ کو براہ راست جھوٹا نہیں کہا۔ قرآن کریم نے اس کی شہادت یوں دی: ﴿فَإِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُونَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللّٰہِ یَجْحَدُونَ﴾ ’’یقینا یہ آپ کو نہیں جھٹلاتے مگر یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ (الأنعام 33/6)