کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 98
اور اس کی بات مقبول تھی تو وہ شخص دو سو بیس سال کی حدود تک زندہ رہا، انتہی، اگر قرن رابع کی مدت اس مدت کے ساتھ ملائیں تو زمانۂ خیر بہت دراز ہوجائے گا ، اور ظاہر یہی ہے۔ امام مالک بہرحال جس طرح ائمہ اربعہ مجتہدین رحمہم اللہ تعالی نے خیر القرون کے زمان برکت نشان کو پایا ہے، اور اس کی فضیلت کی وجہ سے دوسروں پر فائق ہیں ، اسی طرح صدر اول کے ائمہ محدثین نے بھی اس زمانۂ خیر کو پایا ہے ، اور ساری امت پر ان کو فوقیت حاصل ہوئی ہے، ان میں کے اول مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امام مالک بن انس رحمہ اللہ ہیں ، ان کے پردادا ابو عامر کو صحابہ میں ذکر کیا گیا ہے، ۹۰ ھ یا بانوے یا ترانوے یا چورانوے یا پنچانوے میں پیدا ہوئے، تین سال شکم مادر میں رہے اور نوے سال زندہ رہ کر ۱۷۸ھ یا ۱۷۹ھ میں وفات پائی ، جو بھی ہو ان کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا۔ امام اعظم کی وفات امام مالک سے پہلے یعنی۱۵۰ھ میں ہو چکی تھی اس حساب سے ان کا زمانہ امام مالک سے بائیس یا تئیس سال مقدم تھا (٭) یہ دونوں امام ائمہ مجتہدین میں شمار ہیں ، کتاب موطا پہلی کتاب ہے جو علم حدیث شریف میں تالیف ہوئی ، اور بہت زیادہ مبارک اور قدیم ہے، اس جیسی کتاب دوسرے ائمہ اجتہاد سے معلوم نہیں ہے، کیونکہ مسند ابوحنیفہ وامام شافعی دوسروں کی مرتبہ ہے، خود ان لوگوں کی تالیف نہیں ہے۔ امام شافعی ائمہ مجتہدین میں دوسرے امام شافعی ہیں ، جو ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے، اتفاق یہ ہوا کہ ان کے یوم پیدائش کو امام ابوحنیفہ نے رحلت فرمایا، گویا ان کا نعم البدل آیا، امام شافعی کی وفات ۲۰۴ھ میں ہوئی ، اور یہ سال قرون مشہود لہا بالخیر کے تحت داخل ہے۔ (٭ )یہ زلۃ القلم ہے، اور وفات امام اعظم ’’سن یک صد وپنجاہ وشصت لکھے جانے کا نتیجہ ہے ، صحیح سن وفات ۱۵۰ھ کے اعتبار سے تقدم زمانی ۲۸ یا ۲۹ سال ہوتا ہے ۔ (مترجم)