کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 97
قرون خیر کی تحدید قرن نبوی جو بقول جمہور صحابہ پر مشتمل ہے، اس کی مدت ایک سو دس تھی، قرن تابعین ایک سو سال سے ستر سال تک باقی رہا، اور قرن تبع تابعین یہاں سے دو سو بیس سال کی حد تک ہوگا، اور قرن اتباع تبع تابعین بغیر کمی کے اسی قدر ہوگا، رہی یہ بات کہ دلیل الطالب میں قرن رابع کی روایت کی سند کو ضعیف کہا ہے، اس کی وجہ اس وقت میں حدیث مسلم سے غفلت رہی ہے ، اس کا ثبوت راجح ہے، ان شاء اللّٰہ تعالی، ورحمۃ اللّٰہ أوسع وفضلہ أکثر۔ حافظ ابن حجر نے قرن رابع کے ذکر میں حضرت جابر کی روایت کو شاذ کہا ہے، اور لکھا ہے کہ اکثر روایات تین قرن پر محدود ہیں ، اس روایت کا مسلم میں ہونے کے باوجود اس پر شذوذ کا حکم درست نہیں بیٹھ رہا ہے، جب کہ علماء اصول کی بلند پایہ جماعت کے نزدیک زیادہ ثقہ مقبول ہے، پھر ضرورت کیا ہے کہ وسیع چیز کو محدود کیا جائے، موت کے اعتبار سے آخری صحابی ابو الطفیل عامر بن واثلہ لیثی ہیں ، جو سن ایک سو یا ایک سو سات یا ایک سو سولہ میں وفات پائے ، پس اگر آخری روایت ثابت ہوجائے تو قرن اسی مدت سے عبارت ہوگا، اور اس کے بعد والے قرون اسی پر قیاس کئے جائیں گے ، مگر اس صورت میں کہ تابعین اور تبع تابعین کا وجود مسعود روئے زمین پر اس سے زیادہ مدت تک پایا جائے تو قرون کی مدت زائد ہوگی۔ حافظ ابن حجر نے کہا: یہ بات ظاہر ہوگئی کہ بعثت رسالت اور صحابہ سے آخر دو صدسالہ کے درمیان ایک سو بیس سال ہے ، یا ابو الطفیل کی وفات میں اختلاف کی بنا پر کم زیادہ ہے، اور اگر قرن کا اعتبار نبوت کی وفات کے بعد سے شمار کریں ، تو ایک سو نوے یا ستانوے سال ہوں گے، اور قرن تابعین کو سو سال سے معتبر مانیں تو ستر یا اسی سال ہوتے ہیں ، رہے وہ لوگ جو ان کے بعد کے ہیں اگر ان کا زمانہ یہیں سے اعتبار کریں تو پچاس سال کے قریب ہوتے ہیں ، یہیں سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ہر زمانے کے لوگوں کی عمروں کے اختلاف کی وجہ سے قرن کی مدت مختلف ہے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ تبع تابعین میں سے آخری شخص جو زندہ رہا