کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 96
’’ مَثَلُ أُمَّتي مَثَلُ المطَرِ، لا يُدْرى أوَّلُه خيرٌ أمْ آخِرُه ‘‘[1] (میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے، جس کے بارے میں یہ پتہ نہیں ہوتاکہ اس کا اول بہتر ہے یا آخر ) یہ حدیث حسن ہے ، اس کے متعدد طرق ہیں ، جن سے صحت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ، انتہی ۔ قول صواب : مسند وقت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی کا قول یہی ہے کہ صحابہ کی خیریت وافضلیت دوسروں پر مجموع بمجموع کے اعتبار سے ہے ، نہ کہ افراد با افراد کے اعتبار سے، انتہی، یہی درست ہے، کیونکہ صحابہ میں بعض ایسے گذرے ہیں جو حدود کے مرتکب ہوئے، اور آخر امت میں ایسے لوگ ہوں جو صلاح کامل کے حامل ہوں ، اگر اولیت اور آخریت کو کسی زمانے کے ساتھ مقید نہ کریں تو یہی زیادہ اولی ہوگا، کیونکہ یہ قول ان تمام اہل خیر وصلاح کو شامل ہوگا جوصحابہ کے بعد آئے، اور ان کا علم وفضل معلوم ہے، پس اس کو امر اضافی پر محمول کرنا زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے۔ شوکانی نے شرح منتقی میں جمہور کے قول اور ابن عبد البر کے قول کے درمیان تطبیق اس طور پر دی ہے کہ صحابہ کی فضیلت پر تنصیص فضیلت صحبت کے اعتبار سے ہے، لیکن اعمال خیر کے اعتبار سے وہ اور دوسرے برابر ہیں ، کیونکہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صحابہ کے بعد والے لوگوں میں کبھی کبھی کوئی ایسا شخص اٹھے جس کے اعمال صحابی سے زیادہ ہوں ، پس کثرت اعمال کے اعتبار سے اس کا اجر زیادہ ہوگا، اور اس حیثیت سے وہ افضل ہوگا، ایسا بہت ہوتا ہے کہ صحابہ کے بعد والے لوگوں میں ایسے افراد پائے جائیں جو صحابہ سے عمل میں کم تر ہوں ، پس اس حیثیت سے وہ مفضول ہوں گے ، الخ۔ یہ تمام اقوال میں بہترین قول ہے ، اس کو دلیل الطالب میں دیکھو۔
[1] ترمذی امثال : ۲۲۹، ۲۳۰، احمد ۳ / ۱۳۰، ۱۴۳، حسن ۔