کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 95
طرح مسلم کی اس حدیث میں ہے، اور صحیح مسلم ، صحیح بخاری کی طرح بلا فرق وتفاوت حجت ہے، پس جس خیر وفضل کی خبر دی گئی ہے، وہ چاروں قرن کو شامل ہے۔ ’’ قرن ‘‘ کی تحقیق ’’قرن‘‘ کی تحدید اور اس کی مدت کی تعیین کے بارے میں علماء حدیث اور ائمہ لغت کے اقوال مختلف ہیں ، ان لوگوں نے کم اور زیادہ دونوں مدت کی نشان دہی کی ہے، لیکن اس باب میں زجاج کا قول تمام اقوال سے زیادہ راجح ہے، وہ کہتا ہے کہ قرن ہر وہ مدت یا زمانہ ہے جس میں پیغمبر ہو یا اہل علم کا طبقہ ہو، خواہ سال کم ہوں یا زیادہ، اس نے پہلی حدیث ’’ خيرُ القٌرونِ قرنى ‘‘ سے استدلال کیا ہے، اور لفظ ’’قرنی‘‘ کو عہد صحابہ پر محمول کیا ہے ۔ قاموس میں قرن کو صد سالہ مدت کہا ہے، اور اس کے اصح ہونے کی نشان دہی کی ہے، مغیرہ نے کہا کہ قرن نبوی سے مراد صحابہ ہیں ، اور ’’ الَّذينَ يلونَهم ‘‘ سے صحابہ کی اولاد مراد ہیں ، اور دوسرا ’’ الَّذينَ يلونَهم ‘‘ صحابہ کی اولاد کی اولاد پر محمول ہے، شہر کا قول ہے کہ قرن نبوی وہ مدت ہے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والی آنکھ باقی رہی، دوسرا قرن وہ ہے کہ صحابی کو دیکھنے والی آنکھ جب تک باقی رہی ، ثم کذلک، بعض لوگوں نے دس سال سے ایک سو بیس سال تک کو قرن کہا ہے، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ امام مسلم کے نزدیک عبد اللہ بن بشر کی حدیث میں قرن کے ایک صد سالہ ہونے پر دلالت ہے، اور یہ مشہور ہے۔ حاصل یہ کہ قرن کی تحدید میں اختلاف وانتشار بہت ہے، لوگوں نے انسان کی طبعی عمر ایک سو بیس یا ایک سو پچیس سال بیان کی ہے، اگر قرن کو اس مدت کے ساتھ محدود کریں تو کوئی مستبعد چیز نہیں ہے، اس باب میں تمام اختلافات کا قصہ دلیل الطالب میں مذکور ہے۔ حافظ نے کہا ہے کہ حدیث خیر القرون کا مقتضی یہ ہے کہ صحابہ افضل ہیں تابعین سے، اور تابعین افضل ہیں تبع تابعین سے ، لیکن یہ فضیلت مجموع کی نسبت سے ہے یا افراد کی نسبت سے ؟ محل بحث ہے ، جمہور کا میلان دوسرے پہلو کی طرف ہے، اور پہلا قول عبد البر کا ہے، اور ان کا استدلال اس حدیث سے ہے۔