کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 92
بہر حال ملت اسلامیہ کے جملہ اکابر ان بے خبر جاہلوں اور شوریدہ سر احمقوں کی لعن طعن سے محفوظ ہیں ، یہ بزرگان ملت چاہے ائمہ اربعہ مجتہدین ہوں ، یا محدثین کا گروہ، یا صالح متصوفین کی جماعت، یا دوسرے متقدمین کا طبقہ ہو۔ ائمہ اربعہ اکابر ملت جو ہم سے صدیوں پہلے جلوہ گر تھے، اور زمانۂ خیر القرون کا تھوڑا یا زیادہ حصہ پائے تھے ان میں ائمہ ا ربعہ کو نمایاں مقام حاصل ہے، پھر ان میں امام اعظم ابو حنیفہ کوفی رحمہ اللہ اول مجتہد ہیں ، دوسرے امام دار الہجرۃ مالک بن انس ، تیسرے امام شافعی اور چوتھے امام احمد ہیں ، یہ چاروں بزرگوار قرون مشہود لہا بالخیر کے تیسرے قرن میں تھے ، کیونکہ امام اعظم کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی تھی ، امام مالک کی وفات ۱۷۹ھ میں واقع ہوئی تھی ، امام شافعی کی ولادت امام اعظم کے سال وفات (۱۵۰ھ ) سے متفق ہوئی، اور امام احمد ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے (٭)، جیسا کہ علامہ فلانی نے ایقاظ الھمم میں ذکر کیا ہے۔ حدیث عمران بن حصین میں ہے کہ: ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : خيرُ أُمَّتي قرني ثم الذين يلونَهم ثمَّ الذين يلونَهم ‘‘ الحدیث۔[1] (میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ، پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ، پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ) امام اعظم اس حدیث میں لفظ ’’قرنی‘‘ کو اگر حیات نبوت کے زمانے کے ساتھ مخصوص رکھیں ، جیسا کہ بعض بڑے علماء کا مسلک ہے، تو صحابہ وتابعین کے دو زمانے باقی رہتے ہیں ، (یعنی تابعین تک خیر القرون محدود ہوگا) اور جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ امام اعظم کے
[1] اصل کتاب میں لکھا ہے: ’’وفات امام اعظم در سنہ پنجاہ وشش بودہ، وفات امام مالک در سنہ ہفتاد ونہ، وامام احمد در سنہ شصت وچہار متولد گشتہ‘‘ عبارت میں دو خطا ہوئی ہے، اول یہ کہ تینوں جگہ سنین میں لفظ ’’ یک صد ‘‘ فروگذاشت ہوا ہے، دوسرے یہ کہ امام اعظم کے سن وفات میں پنجاہ کے بعد ’’شش ‘‘ غلط ہے، یعنی ان کا سن وفات ۱۵۰ ہے، (اصل کتاب ص: ۵۸) مترجم۔  بخاری فضائل : ۳۶۵۰، مسلم فضائل ۲۵۳۵۔