کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 91
اسی طرح ہمارے دل بعض سنت کی اتباع کے لئے نرم ہوجائیں اور حسب خواہشات وعادات بعض احادیث قبول کرنے سے گریز اور نفرت کریں ، کیونکہ یہ روش راہ راست سے خروج اور مغضوب علیہم اور الضالین کی راہ کی طرف رجوع کے ہم معنی ہے، اللہ تعالی ہمیں بخیر وعافیت اپنے محبوب وپسندیدہ قول وعمل کی توفیق بخشے ، یہ دعا ہمارے لئے اور تمام مسلمان بھائیوں کے لئے ہے۔ خلاصۂ کلام یہ سب باتیں رفع الملام عن الائمۃ الأعلام میں مذکور ہیں ، اور خلاصہ کلام اس جگہ یہ ہے کہ ائمہ اسلام کے حق میں جاہلوں کی لعن طعن خواہ محدثین کے بارے میں مقلدین کی طرف سے ہو، یا مجتہدین کے بارے میں متبعین کی جانب سے ہو، اس کی دو وجہیں وصورتیں ہیں ، ایک ترک تقلید ائمہ ، اس ترک کو امام کے حق میں تارک کی بدگمانی کا سبب سمجھتے ہیں ، اور اسی کے مثل مقلدین پر غیر مقلدین کا طعن ہے کہ وہ صحیح حدیث پر عمل اس لئے ترک کردیئے کہ وہ ائمہ مجتہدین کے قول کے مخالف ہے، اور اس کو بھی اپنے ائمہ کی طرف منسوب جانتے ہیں ، اس بنا پر اپنے مخالفوں کو گالی گلوج سے نوازتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض ایسے افعال کرنے کے بارے میں لعن طعن ہوتی ہے جن پر وعید آئی ہے، اور بعض ائمہ سے ان کا صادر ہونا معلوم ہے۔ پہلے امر کا جواب وہی عذروں ومجبوریوں کے اسباب ہیں جو مذکور ہوچکے ہیں ، عذروں کے موجود ہوتے ہوئے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ بزرگان دین کو طعن وتشنیع کے شکنجہ میں کسے، کیونکہ ان لوگوں نے حدیث پر ترک عمل ہرگز نفسانیت اور جاہلی حمیت وعصبیت کی راہ سے نہیں کیا ہے، جیسا کہ ان کے بعد والے لوگ صحیح عذروں اور جائز سببوں کے وجود کے بغیر کرتے ہیں ۔ دوسری وجہ کا جواب یہ ہے کہ ان ائمہ کو وعید لاحق نہیں ہوتی ہے ، اس کے وجوہ واسباب اس کتاب میں بالتفصیل پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔