کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 89
ان کے علاوہ بھی بہت سی آیات واحادیث وعید ہیں جو اہل علم سے مخفی نہیں ہیں ، جب ہم وعید کی ان آیات واحادیث کے قائل ہیں تو جائز نہیں ہے کہ ان افعال کے کرنے والوں میں سے ایک شخص کو معین کرکے کہیں کہ اس کو یہ وعید لاحق ہوگئی ، کیونکہ ممکن ہے اس نے توبہ کر لیا ہو، یا عقوبت کو ساقط کرنے والا کوئی سبب پایا جاتا ہو۔ یہ کہنا بھی جائز نہیں ہے کہ یہ کام مسلمانوں کی لعنت یا امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت، یا صدیقین یا صالحین کی لعنت کو مستلزم ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ صدیق یا صالح شخص سے جب اس قسم کا کوئی کام صادر ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ سبب وعید قائم ہوتے ہوئے بھی کوئی مانع ہے جو اس کو وعید لاحق ہونے سے روکتا ہے ، پس ان امور کا صدور ایسے شخص سے جو ان کو اجتہاد یا تقلید وغیرہ کی بنا پر مباح گمان کرتاہے، اس کی غایت یہ ہے کہ صدیقین کی ایک قسم ہوتی ہے جن کو مانع کی بنا پر وعید لاحق ہونا ممتنع ہے، جس طرح کہ توبہ یا حسنات جو کفارہ سیئات ہوتی ہیں ، کی بنا پر اس کو وعید لاحق ہونا ممتنع ہے۔ یہ وہ راستے ہیں جن پر چلنا واجب ہے ، کیونکہ ان راستوں کے سوا دو خبیث راستے ہیں ، ایک اس بات کا قائل ہونا کہ افراد میں سے کسی معین فرد کو وعید لاحق ہوتی ہے ، اور اس بات کا دعوی کرنا کہ یہ کام اللہ یا رسول کی نصوص کے بموجب مختارہے، یہ قول ودعوی خوارج کے قول سے بھی بدتر ہے، جو معاصی کی وجہ سے مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں ، اور معتزلہ وغیرہ کے قول سے بھی قبیح ہے، اس قول کا فساد بالاضطرار معلوم ہے، اس فساد کی دلیلیں دوسرے مقامات میں معلوم ومشہور ہیں ۔ دوسرا خبیث طریقہ اللہ یا رسول کی نصوص کے مقتضی پر عمل اور قول کو ترک کردینا ہے، اور اس کی توجیہ میں یہ دعوی کرنا کہ نصوص کے موجب کا قائل ہونے پر ان لوگوں کے حق میں طعن لازم آتا ہے، جو ان کے خلاف راہ اختیار کئے ہیں ، یہ طریقہ ، ضلالت اور اہل کتابین کے ساتھ شمولیت کی طرف لے جاتا ہے ، جنہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو