کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 84
سائل کہہ سکتا ہے کہ اگر تم یہ بات جائز سمجھتے ہو کہ اس فاعل کی لعنت مسائل اجتہاد میں سے ہو تو پھر جائز ہے کہ ظاہر نصوص سے اس پر استدلال چلے، کیونکہ اس وقت محل اختلاف کے ارادہ کے ساتھ حدیث وعید سے پناہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ارادہ کا مقتضی قائم ہے، پس اس پر عمل واجب ہوگا، اور اگر اس فاعل کی لعنت کو مسائل اجتہاد سے ہونا جائز نہیں سمجھتے تو اس کی لعنت کی تحریم قطعی ہوگی ، اور شک نہیں کہ لاعن جس کی تحریم قطعی ہے، اس وعید میں داخل ہے جو لاعن کے حق میں آئی ہے، ہر چند کہ اس کی تاویل کی گئی ہو، جیسے کوئی شخص بعض سلف صالح کو لعنت کرتا ہے، پس ثابت ہوا کہ دور لازم ہے، چاہے لعنت فاعل کی تحریم کو قطعی مختلف فیہ سمجھیں ، یا اس میں اختلاف کو جائز کہیں ، اور یہ اعتقاد جو ہم نے ذکر کیا ہے دونوں صورتوں میں نصوص وعید سے استدلال کو روکنے والا نہیں ہے، یہ بالکل واضح اور روشن ہے۔ سائل یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس بحث سے ہمارا مقصود محل اختلاف کے لئے وعید شامل ہونے کی تحقیق نہیں ہے، بلکہ محل وعید پر حدیث وعید سے استدلال کی تحقیق مقصود ہے ، اور حدیث ہر دو حکم تحریم اور وعید کے لئے مفید ہے ، تم نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ صرف اتنے ہی کام کی ہے کہ وعید پر دلالت کی نفی سے تعرض کر رہی ہے ، اور اس سے مقصود صرف تحریم پر اس کی دلالت کا بیان ہے، پس جب تم نے التزام کیا کہ لاعن کے بارے میں وارد احادیث مختلف فیہ کی لعنت کو شامل نہیں ہیں ، تو پھر مختلف فیہ کی لعنت کی تحریم پر کوئی دلیل باقی نہیں رہی ، اور مختلف فیہ کی لعنت جس کے ہم درپے ہیں ، جب حرام نہیں ہوگی تو جائز ہو جائے گی ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب اس کی تحریم پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے تو اس کی تحریم کا اعتقاد جائز نہیں ہوگا، حالانکہ اس کے جواز کا مقتضی قائم ہے کہ وہ احادیث اس فعل کے فاعل کی لعنت کو شامل ہوں ، اور علماء نے اس کی لعنت کے جواز میں اختلاف کیا ہے، اس تقدیر پر اس کی لعنت کی تحریم پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، پس اس کی لعنت کے جواز کی دلیل جو معارض سے سالم ہے اس پر عمل کرنا واجب ہوگا، اور یہ حال سوال کو باطل کردیتا ہے، کیونکہ سائل پر دوران امر دوسری جہت سے ہے، اور یہ دوسرا دور محض اس لئے پیش آیا ہے