کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 83
ہے جو نصوص وعید میں محل اختلاف کے دخول کا معتقد ہے، اور اپنے اس اعتقاد کی بنا پر محل اختلاف میں وعید کا خوف دلاتا ہے، مثلا ایسے شخص پر لعنت کرتا ہے جو وہ کام کرتا ہے ، مگر اعتقاد میں وہ ایسی غلطی کا قصوروار ہے جس میں وہ معذور ہے ، اور اس پر اجر بھی پاتا ہے، پس اس شخص کی وعید میں داخل نہیں ہوگا جو ناحق لعنت کرنے والا ہے، کیونکہ اس وعید کا اعتقاد ہمارے نزدیک ایسے فعل کی لعنت پر محمول ہے جو بالاتفاق حرام ہے، پس جس نے متفق علیہ حرام پر لعنت کیا، وہ وعید مذکور کو لعنت پر متعرض ہوا۔
اور جب لعنت کا تعلق اختلافی صورتوں سے ہے تو احادیث وعید میں داخل نہیں ہوگی، جس طرح وہ فعل جس کی حلت اور اس کے فاعل کی لعنت میں اختلاف ہے، احادیث وعید میں داخل نہیں ہے، پس جس طرح محل اختلاف وعید اول سے خارج ہوا اسی طرح وعید ثانی سے بھی خارج ہوا، پس ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ احادیث وعید دونوں جانب میں محل اختلاف کو شامل نہیں ہیں ، نہ جواز فعل میں اور نہ اس کے فاعل کی لعنت کے جواز میں خواہ جواز فعل کا اعتقاد رکھیں یا عدم جواز کا ، ہم دونوں صورتوں میں اس کے فاعل کی لعنت کو اور اس کے فعل پر لعنت کرنے والے کی لعنت کو جائز نہیں رکھتے ہیں ، اور نہ فاعل اور لاعن کو حدیث وعید میں داخل ہونے کی بات کہتے ہیں ، نہ ہی لاعن کے لئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں ، جس طرح کہ کوئی شخص اس کو وعید بلکہ لعنت سے متعرض سمجھتا ہے۔
یہ بات اس شخص کے بارے میں ہے جو مختلف فیہ فعل کو مسائل اجتہاد میں شمار کرتا ہے، اور ہم اس فعل میں اس کی خطا کے معتقد ہیں ، جس طرح اس کو مباح قرار دینے والے کی خطا کا اعتقاد رکھتے ہیں ، کیونکہ محل اختلاف میں تین اقوال ہیں ، ایک قوال جواز کا ہے ، دوسرا قول وعید کے لاحق ہونے کی حرمت کا ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ وہ صرف حرام ہے، اور اس سخت وعید سے خالی ہے، ہمارے نزدیک یہی تیسرا قول مختار ہے، کیونکہ فعل کی تحریم اور فاعل کی مختلف فیہ لعنت کی تحریم پر دلیل قائم ہے، ساتھ ہی اس معنی کا اعتقاد ہے کہ فاعل کی وعید اور لاعن کی وعید کے بارے میں وارد حدیث ان دونوں صورتوں کو شامل نہیں ہے۔