کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 82
اور شہادت کے مرتبہ سے خارج کردیتی ہے۔ حدیث مذکور اس شخص کو شامل ہے جو غیر اہل کو لعنت کرتا ہے، پس جب فاعل مختلف فیہ اس نص میں داخل نہیں ہے تو وہ لعنت کا اہل نہیں ہوگا، اور اس کو لعنت کرنے والا اس وعید کا سزاوار نہیں ہوگا، اور جو مجتہد محل اختلاف کو اس حدیث میں داخل خیال کرتے ہیں وہ اس وعید کے مستحق ہوں گے، اور جب محل اختلاف کے خارج کرنے اور باقی رکھنے کی صورتوں میں محذور ثابت ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ محذور نہیں ہے، اور نہ حدیث سے استدلال کرنے میں کوئی مانع ہے۔ اگر کسی ایک صورت میں محذور ثابت نہیں ہے تو خود ہی کوئی محذور لازم نہیں آتا ہے، اور یہ اس لئے کہ جب تلازم ثابت ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ موجود ہونے کی تقدیر پر ان ائمہ کا حدیث میں داخل ہونا عدم کی تقدیر پر ان کے دخول کو مستلزم ہے ، پس دو امر میں سے ایک ثابت ہوگا ، یا ملزوم اور لازم کا وجود جس کا مطلب ہے تمام لوگوں کا دخول، یا لازم اور ملزوم کا عدم جس کا معنی ہے ان تمام کا عدم دخول ، کیونکہ ملزوم کے وجود کے وقت لازم کا وجود لازم ہوگا، اور ملزوم کے عدم کے وقت لازم کا عدم لازم آئے گا، سوال کے ابطال میں اس قدر جواب کافی ہے ، لیکن ہم جو اعتقاد رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دونوں تقدیر پر ان لوگوں کا عدم دخول امر واقع ہے، جیسا کہ ابھی ثابت ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وعید کے تحت دخول اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ فعل میں عذر موجود نہ ہو، رہا شرعی عذر کی وجہ سے معذور شخص تو اس کو وعید کسی حال میں شامل نہیں ہے، اور مجتہد صرف معذور ہی نہیں بلکہ ماجور بھی ہے، اس لئے اس کے حق میں دخول کی شرط منتفی ہے، پس وعید کے تحت داخل نہیں ہوگا، خواہ حدیث کے ظاہر پر باقی رہنے کا اعتقاد رکھے ، یا کسی طرح کا اختلاف ظاہر کرے، بہرحال اس میں معذور رکھا جائے گا، یہ الزامی جواب مسکت ہے، بجز ایک صورت کے اس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ وہ ایک صورت یہ ہے کہ سائل کہے میں تسلیم کرتا ہوں کہ علماء مجتہدین میں سے کوئی ایسا