کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 80
کرنے والا گمان کرتا ہے، او ر اس میں کبھی وہ صواب تک پہنچ جاتا ہے ، اور کبھی خطا کر جاتا ہے، بشرطیکہ وہ حق کی پوری جستجو کرے اور خواہش نفس کی پیروی اس کو تحقیق حق سے روکنے والی نہ ہو، اور اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے۔
دسواں جواب :
ان احادیث وعید کا اپنے مقتضیات پر باقی رہنا بعض مجتہدین کے وعید کے تحت داخل ہونے کو مستلزم ہے، اگرچہ دونوں تقدیروں پر لازم آئے، یعنی معارض سے سالم حدیث پرعمل کرنا واجب ہوگا۔
اس کا بیان یہ ہے کہ بہت سے ائمہ نے تصریح کیا ہے کہ مختلف فیہ صورت کا فاعل ملعون ہے، ان میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ہیں ، ان سے لوگوں نے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جس نے ایک عورت کو اپنی گرفت میں لیا، تاکہ اس کو حلال بنائے، عورت اور اس کا شوہر اس ماجرا کو سمجھ نہیں پائے، جواب میں ابن عمر نے کہا یہ زنا کاری ہے، نکاح نہیں ہے: ’’لعن اللّٰہ المحلل والمحلل لہ‘‘ یہ واقعہ اور مسئلہ ان سے کئی طریقوں سے محفوظ ہے، ان کے علاوہ دوسروں سے بھی محفوظ ومنقول ہے، جن میں امام احمد بن حنبل بھی شامل ہیں ، کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ جب اس نے حلال کرنے کا ارادہ کیا تو محلل ہوا، اور محلل ملعون ہے، خمر اور ربا وغیرہ کے بارے میں بہت سی اختلافی صورتوں کے سلسلے میں یہی بات ائمہ کی جماعتوں سے منقول ہے۔
پس اگر شرعی لعنت اور دوسری وعیدیں صرف اتفاقی صورتوں کو شامل ہوں ، اور اختلافی صورتیں وعید سے خارج ہوں تو لازم آئے گا کہ ان ائمہ نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے جس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، پس یہ لوگ ایسی وعید کے مستحق ہوں گے جو کئی حدیثوں میں بیان ہوئی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’لعن المؤمن کقتلہ‘‘[1] ( مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کے مانند ہے )
[1] بخاری الایمان والنذور : ۶۶۵۲۔