کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 79
لئے اللہ کی طرف سے عذر قائم ہوجائے، اس کی مثال ایسی ہے کہ صغائر حرام ہیں ، لیکن کبائر سے اجتناب کی صورت میں وہ معاف ہوجاتے ہیں ، یہی حال ان تمام محرمات کا ہے جن کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ، ان کے حرام ہونے کا بیان ہوتا رہتا ہے، لیکن ان کے فاعل کو اجتہاد یا تقلید کے حوالے سے معذور رکھا جاتا ہے، اور یہ حال اس کی حرمت کے اعتقاد سے ہم کو مانع نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ حکم کا بیان کرنا عقاب کے لاحق ہونے سے مانع شبہہ کے زوال کا سبب نہیں ہے، کیونکہ اعتقاد کا عذر حاصل ہے، اور مقصود شبہہ مانعہ کی بقا نہیں ہے، بلکہ حسب امکان اس کا زوال مطلوب ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی تو علم کا حصول واجب نہ ہوتا ، اور لوگوں کو ان کی جہالت پر چھوڑ دینا بہتر ہوتا ، اسی طرح مشتبہ مسائل کے دلائل ترک کردینا ان کے بیان کرنے سے اولی ہوتا ۔
تیسرے یہ کہ حکم اور وعید کا بیان اس لئے ضروری ہے کہ یہ حرام سے اجتناب کرنے والے کے لئے اجتناب پر ثابت وقائم رکھنے کا سبب ہے، اگر ایسا نہ ہو تو حکم پر عمل انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
چوتھے یہ کہ جہالت وغیرہ کا عذر اسی حالت میں عذر ہوسکتا ہے جب اس کے ازالہ پر قدرت نہ ہو، ورنہ انسان جس وقت معرفت حق پر قادر ہو جائے اور اس میں کوتاہی کرے تو معذور نہیں ہے۔
پانچویں یہ کہ لوگوں میں کوئی ایسا شخص ہو جو وعید کا کام کرتا ہے، اور خود ایسا مجتہد نہیں ہے جس کا اجتہاد اس فعل کو مباح قرار دیتا ہے ، یا مباح کرنے والے کا مقلد نہیں ہے، تو اس قسم میں اس مانع خاص کے بغیر وعید کا سبب قائم ہوگا، اور اس کا فاعل وعید سے ہم کنار ہے، اور وعید اس کو لاحق ہے، سوائے اس کے کہ کوئی دوسرا مانع ہو، جیسے توبہ ، استغفار یا حسنات جو اس گناہ کا کفارہ ہو جائیں ، وغیر ذلک ۔
پھر یہاں پر ایک کام پریشانی والا ہے ، کبھی انسان اپنی تقلید یا اجتہاد کو اس فعل کا مباح