کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 78
اس پر لازم نہیں ہے کہ جس شخص کے حق میں وعد یا وعید متخلف ہوگئی ہے اس کو معارض کی بنا پر مستثنی کرے، پس درست طریقہ پر کلام جاری رہے گا، مگر جس وقت لعنت کو ایسے فعل کی طرف منسوب کریں جس کی حرمت پر اجماع ہے، یا لعنت کا سبب وہی مخالف اجماع اعتقاد ہو، اور اس لعنت کا سبب حدیث میں مذکور نہ ہو، پھربھی اس عموم کی تخصیص کے بغیر چارہ نہیں ہے، اور جب تخصیص ہر دو صورت میں ضروری ہوئی تو اس کا التزام اول پر زیادہ اولی ہے، جیسا کہ طرز کلام کی موافقت اور اس کے اضمار سے خالی ہونے سے ظاہر ہے۔ نواں جواب: اس معنی کا موجب یہی لعنت کے شامل ہونے کی نفی ہے، خاص کر معذور کے لئے، یہ بیان گذر چکا ہے کہ احادیث وعید سے مقصود اس معنی کو بیان کرنا ہے کہ وہ فعل اس عقوبت کا سبب ہے، پس مطلب اس طرح ہوگا کہ یہ فعل لعنت کا سبب ہے۔ اگر کہا جائے کہ اگرچہ اس معنی سے ہر شخص کے حق میں حکم کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا ہے، لیکن سبب لازم آتا ہے، اور جب حکم قیام سبب کے تابع نہیں ہوگا تو کوئی قباحت نہیں ہے، گذشتہ بحث میں ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ مجتہد کی حالت کو مذمت لاحق نہیں ہوتی ہے، پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ حرام کو حلال کرنے والا اس کے کرنے والے سے بڑا گنہگار ہے، اس کے باوجود معذور معذور ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ معاقب (سزا دیا جانے والا ) کون ہے؟ کیونکہ حرام کا فاعل یا مجتہد ہے یا اس کا مقلد، اور دونوں ہی عقوبت سے خارج ہیں ، ہم کہیں گے کہ اس کا جواب کئی طریقوں سے ہے، ایک یہ کہ یہاں پر مقصود اس امر کو بیان کرنا ہے کہ یہ فعل اس عقوبت کا مقتضی ہے، خواہ اس کا فاعل پایا جائے ، یا نہ پایا جائے ، اور جب ہم فرض کریں کہ اس کا فاعل نہیں ہے، جب کہ عقوبت کی شرط اس میں منتفی ہے، یا کوئی مانع اس کے ساتھ قائم ہے، پس یہ معنی اس فعل کے حرام ہونے میں قادح نہیں ہوگا، بلکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ فعل حرام ہے، اور جس پر اس کی حرمت واضح ہو جائے وہ اس سے پرہیز کرے، اور اس کے فاعل کے