کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 77
اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ ایک وہ آدمی جو اپنا ازار یا لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، دوسرا وہ آدمی جو دے کر احسان جتاتا ہے ، تیسرا وہ جو جھوٹی قسم کھا کر مال تجارت کو فروغ دیتا ہے)۔ ان حدیثوں میں وعید منصوص ہے، اس کے باوجود علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ تکبر کی وجہ سے لباس نیچے لٹکانا مکروہ ہے، حرام کے درجہ میں نہیں ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لعن اللّٰہ الواصِلةَ والموصولةَ‘‘[1] یہ اصح احادیث میں سے ہے، اس کے باوصف وصل شعر (اپنے بال میں دوسرے کا بال ملانے ) کے بارے میں علماء کا اختلاف معروف ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ان الذي يَشربُ في آنيةِ الفِضَّةِ إنَّما يُجَرْجِرُ في بَطْنِهِ نارَ جَهَنَّمَ ‘‘[2] اس کے برخلاف بعض علماء چاندی کے برتن میں کھانا پینا حرام نہیں سمجھتے ہیں ۔ ساتواں جواب : کلام میں واجب عموم اپنی جگہ پر قائم ہے، اور اس کے معارض مذکور میں تعارض کی صلاحیت نہیں ہے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ عذر کے طور پر یہی کہا جائے گا کہ اتفاقی اور اختلافی دونوں صورتوں پر اس کو محمول کرنا بعض غیر مستحق لعنت کے دخول کو مستلزم ہے، اس پر کہا جائے گا کہ جب تخصیص خلاف اصل ہے تو تکثیر بھی خلاف اصل ہوگی ، اور جو شخص جہالت یا اجتہاد یا تقلید کی وجہ سے معذور ہے، وہ اس عموم سے مستثنی ہے، نیز جس طرح حکم اتفاقی صورتوں کو شامل ہے اسی طرح غیر معذوروں کو بھی شامل ہے ، کیونکہ یہ بہت معمولی سی تخصیص ہے، اس لئے زیادہ اولی یہی صورت ہوگی۔ آٹھواں جواب : یہ ہے کہ جب لفظ کو اس معنی پر حمل کریں گے تو سبب لعنت کے ذکر کو متضمن ہوگا، اور مانع کی بنا پر مستثنی سے حکم پیچھے رہے گا، اس بات میں شک نہیں ہے کہ جس نے وعد یاوعید کیا
[1] یہ دونوں حدیثیں نمبر ۳۱، ۳۲ میں مع ترجمہ وتخریج گذر چکی ہیں۔ [2] یہ دونوں حدیثیں نمبر ۳۱، ۳۲ میں مع ترجمہ وتخریج گذر چکی ہیں۔