کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 75
نہیں ہے کہ اسی کے ساتھ کفر مختص ہو، اور دوسرے کے ساتھ نہ ہو ، اور یہ بمنزلہ ایسے شخص کے ہے جو کہتا ہے : ’’لعن اللّٰہ من کذب الرسول فی حکمہ بأن شرط الطلاق باطل فی النکاح‘‘ (اللہ تعالی نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جس نے رسول کے اس حکم کی تکذیب کی کہ نکاح میں طلاق کی شرط باطل ہے) مزید یہ کہ یہ کلام لفظی ومعنوی عموم کے ساتھ عام ہے، وھو عموم مبتدیٔ ، اس عموم کو نادر صورتوں پر محمول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کلام مذکور پھر لوٹ آتا ہے، جیسے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول : ’’أیما امرأۃ نکحت نفسھا من غیر اذن ولیھا‘‘ الحدیث۔ [1]کی تاویل کرنے والے نے مکاتبہ سے تاویل کیا ہے۔ اس کے شاذ ونادر ہونے کا بیان یہ ہے کہ جاہل مسلمان حدیث میں داخل نہیں ہے، اور جو مسلمان وفاء شرط کے عدم وجوب کا عالم ہے وہ وفاء شرط کے واجب ہونے کے اعتقاد کی شرط نہیں کرتا ہے، مگر وہ شخص جو کافر ہوگیا ہو، اور کافر اسلامی نکاح نہیں کرتا ہے، البتہ منافق کرتا ہے، اس طریقہ پر اس جیسے نکاح کا وقوع انتہائی نادرات میں سے ہے، اگر کوئی کہے کہ اس جیسی نادر صورت متکلم کے دل میں گذرنا بہت مشکل ہے ، تو میں کہوں گا کہ قائل صادق ہے، اس کے دلائل کثیرہ دوسرے مقام میں ہم ذکر کر چکے ہیں ، یہ حدیث محلل کے قصد ونیت کو بھی شامل ہے، اگر چہ اس نے تحلیل کی شرط نہ کی ہو۔ اسی طرح لعنت اور عقوبت نار وغیرہ کی خالص وعید متعدد مقامات میں منصوص طور پر آئی ہے، پھر بھی بعض لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، جیسے ابن عباس کی مرفوع حدیث : ’’لعن اللّٰہ زائراتِ القُبورِ، والمتَّخذينِ علَيها المساجدَ والسُّرُجَ ‘‘[2] (اللہ تعالی نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور ان پر مساجد بنانے اور چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے) ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے، بعض لوگوں نے
[1] ابوداود ، النکاح : ۲۰۸۳ ، ترمذی النکاح : ۱۱۰۸، صحیح ۔ [2] ابو داود ، جنائز : ۳۲۳۶، أولہ فی الترمذی الجنائز : ۱۰۶۱، ابن ماجہ جنائز : ۱ / ۵۰۲ اسنادہ ضعیف ۔