کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 74
ہے، جس میں وہ مفسدہ گھل مل جاتا ہے، اللہ تعالی نے اسی وجہ سے دونوں کے درمیان فرق فرمایا، مجتہد کو اس کے اجتہاد پر اور عالم کو اس کے علم پر ثواب بخشا ، اور یہ جاہل اس میں اس کا شریک وساجھی نہیں ہے، پس یہ جاہل اور یہ مجتہد دونوں عفو ودرگذر میں شریک ہیں ، اور ثواب میں جدا ہیں ، البتہ عقوبت چاہے بڑی ہو یا معمولی، اس کا غیر مستحق پر واقع ہونا ممتنع ہے، اس لئے عقوبت ولعنت کی حدیث سے اس ممتنع کو ایسے طریقہ سے خارج کرنا ضروری ہے جو دونوں قسموں کو شامل ہو۔
چھٹواں جواب :
اختلاف کی صورت میں وعید کی بعض احادیث نص ہیں ، جیسے محلل لہ کی لعنت، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ شخص (محلل لہ) کسی حال میں گنہگار نہیں ہے، اس لئے کہ پہلے عقد میں وہ تحلیل کسی صورت میں کوئی رکن نہیں تھی، جس کی بنا پر کہا جاسکے کہ تحلیل کی شرط پوری کرنے کے وجوب کا اعتقاد رکھنے سے وہ ملعون ہوا، پس جس نے اعتقاد کیا کہ نکاح اول صحیح ہے، اگرچہ شرط باطل ہے، اور عورت دوسرے کے لئے حلال ہے، تو اس نے دوسرے کو گناہ سے الگ کر دیا، بلکہ پہلے کو بھی بری کردیا، کیونکہ اس کے ملعون ہونے کی دو وجہوں میں سے ایک ہوسکتی ہے، ایک تحلیل ، دوسرے عقد میں شامل شرط کے وجوب وفا کا صرف اعتقاد ، یا دونوں ہی صورتیں ہوں ، اگر اول ثانی کے ساتھ ہے تو غرض حاصل ہوگئی ، اور اگر دوسری صورت ہے تو یہی اعتقاد باعث لعنت ہے، خواہ تحلیل حاصل ہو یا نہ ہو، اس وقت حدیث میں مذکورہ چیزیں لعنت کا سبب نہیں ہوئیں ، اور وہ شخص لعنت کے سبب سے تعرض کرنے والا نہیں ہوا، اور یہ باطل ہے۔
اس پر دوسرا کلام یہ ہے کہ وفاء شرط کے وجوب کا معتقد اگر جاہل ہے تو خود ہی اس پر لعنت نہیں ہے، اور اگر اس کے عدم وجوب کا عالم ہے تو اس کا معتقد وجوب ہونا محال ہوگا، مگر جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا مکذب ومنکر ہوجائے تو وہ کافر ہو جائے گا، اور حدیث کا معنی لعنت کفار کی طرف راجع ہوگا، اور کفر کو اس جزئی حکم کے انکار کے ساتھ کوئی اختصاص