کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 73
اگر علماء کا اعتقاد کافی ہونے کی بات کہی جائے تو کہا جائے گا کہ تم نے علماء کے اجماع کی شرط بعض مجتہدین کو ان کے مخطی ہونے کے باوجود وعید کی شمولیت سے بچانے کے لئے مقرر کی ہے، یہ بات بعینہ اس عام شخص میں بھی موجود ہے جس نے تحریم فعل کی دلیل نہیں سنی ہے، کیونکہ شمول لعنت سے بچایا گیا مجتہد اور یہ عامی آدمی ایک جیسے ہیں ، (یعنی عالم اور غیر عالم دونوں پر ایک حکم ہونا چاہئے ) اس التزام سے لازم نہیں آتا ہے کہ دونوں میں فرق کے لئے کہا جائے کہ پہلا فعل اکابر امت اور فضلاء صدیقین سے واقع ہوا ہے، اور دوسرا امت کے ادنی شخص کی طرف سے ہے، یہ کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ ان دونوں میں اس طریقہ کا فرق اس حکم میں ان دونوں کے اشتراک سے مانع نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی جس طرح مجتہد کو اس سے خطا واقع ہونے پر بخش دیتا ہے، اسی طرح جاہل کو بھی قصور سرزد ہونے پر معاف کر دیتا ہے، جب کہ اس کو علم سیکھنا ممکن نہ ہوا۔ مفسدہ عام مفسدہ خاص سے کمتر ہے واضح رہے کہ عام آدمی کا ایسے حرام کام میں ملوث ہونا جس کی حرمت سے وہ ناواقف ہے ، اور اس سے واقفیت اس کے لئے ممکن نہیں ہے، اس کا مفسدہ اس مفسدہ سے بہت کم تر ہے جو بعض ائمہ کے شارع کی حرام کردہ چیز کو حلال کرنے سے پیدا ہوتا ہے، کیونکہ وہ امام اس شیٔ کی تحریم کا جان کار ہے، اور اس کی تحریم ممکن نہیں ہوئی ، اسی لئے لوگوں کا قول ہے کہ عالم کی لغزش سے بچو ، کیونکہ جب وہ پھسلتا ہے تو ایک جہان پھسل جاتا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے : ’’ویل للعالم من الاتباع‘‘ اور جب عالم کی یہ خطا معاف ہے، حالانکہ اس کے فعل سے پیدا ہونے والا مفسدہ بہت بڑا ہے، تو دوسرے کی خطا بدرجہ اولی معاف ہے، کیونکہ اس کے فعل کا مفسدہ کم تر اور خفیف ہے۔ ان دونوں میں فرق کی وجہ دوسری ہے، جویہ ہے کہ مجتہد نے اجتہاد کیا، اور اپنے اجتہاد سے ایک بات کہی، دوسرے یہ کہ اس کے پاس علم کی اشاعت اور احیاء سنت کی کچھ پونجی