کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 72
حدیث سننے والے پر واجب ہے کہ ان پر عمل نہ کرے، اگرچہ بہت سے علماء کو ان پر عامل پایا ہو، اور ان کے مخالف کا علم اسے نہ ہوسکے، جب تک کہ یہ چھان بین نہ کرے کہ اطراف عالم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے ان کے خلاف عمل کیا ہے، جس طرح کہ اس مسئلے میں اجماع سے استدلال جائز نہیں ہے جب تک کہ پوری بحث وتحقیق نہ ہوجائے۔
اس طریقۂ استدلال کا انجام یہ ہوگا کہ محض ایک مجتہد کے اختلاف کی بنا پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کا کارخانہ درہم برہم ہوجائے گا، اور ایک شخص کا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا مبطل ہوگا، حالانکہ اس کی موافقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ثابت شدہ ہے، یہ کیسا المیہ ہے کہ جب ایک مجتہد غلطی کرے تو اس کی یہ غلطی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے لئے مبطل بن جائے، ظاہر ہے کہ یہ سب بالضرورۃ باطل ہے۔
اگر یہ لوگ کہیں کہ حدیث سے استدلال علم اجماع کے بعد ہی ہے، تو اس کا مطلب ہوا کہ نصوص کی دلالت اجماع پر موقوف ہوگی ، اور یہ خود اجماع کے خلاف ہے، اور اس صورت میں نصوص کی کوئی دلالت باقی نہیں رہتی ہے، کیونکہ معتبر دلیل اجماع ہے، پس نص عدیم التاثیر ہوگی ، اور اگر یہ کہیں کہ حدیث سے استدلال تو ہوتا ہی ہے ، سوائے اس وقت کے جب اختلاف کا وجود معلوم ہو جائے ، پس یہاں بھی امت کے ایک فرد کا قول دلالت نص کا مبطل ٹھہرے گا ، اور یہ بھی خلاف اجماع ہے ، اور اس کا بطلان دین اسلام سے بالاضطرار معلوم ہے۔
پانچواں جواب :
عموم خطاب میں تحریم کے لئے تمام امت کا اعتقاد شرط ہے، یا اس کے علماء کا اعتقاد کافی ہے، اگر پہلی صورت ہے تو تحریم پر احادیث وعید سے استدلال جائز نہیں ہے، تاوقتیکہ ہم یہ معلوم کریں کہ تمام امت یہاں تک کہ دور دراز علاقوں میں نشو ونما پانے والے اور زمانۂ قریب کے نئے نئے مسلمان اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ فعل حرام ہے، ایسی بات کوئی عاقل مسلمان نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اس شرط کا علم ہونا بہت دشوار ہے۔